گریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے

  • Work-from-home

Lightman

TM Star
Aug 27, 2009
4,299
2,429
1,313
FrOnT Of YoUr EyEs
گریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے



گریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے
کبھی وہ دن تھے کہ زلفوں میں شام رکھتے تھے

تمہارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو
وگرنہ تم سے تو ہم سو سو غلام رکھتے تھے

ہمیں بھی گھیر لیا گھر کے زعم نے تو کُھلا
کچھ اور لوگ بھی اِس گھر میں قیام رکھتے تھے

یہ اور بات ہمیں دوستی نہ راس آئی
ہوا تھی ساتھ تو خوشبو مقام رکھتے تھے

نجانے کون سی رُت میں بچھڑ گئے وہ لوگ
جو اپنے دل میں بہت احترام رکھتے تھے

وہ آ تو جاتا کبھی،ہم تو اُس کے رستوں پر
دیئے جلاتے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے



 

Shaizi

Senior Member
Jun 5, 2008
507
184
743
Islamabad, Pakistan

ہم نے سوچ رکھا ہے
چاہے دل کی ہر خواہش
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے
بہہ جائے
چاہے اب مکینوں پر
گھر کی ساری دیواریں چھت سمیت گر جائیں
اور بے مقدر ہم
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں
تم سے کچھ نہیں کہنا
کیسی نیند تھی اپنی،کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نیند والی آنکھوں پر
نرم خو سے خوابوں پر
کیوں عذاب ٹوٹے ہیں
تم سے کچھ نہیں کہنا
گھر گئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں،کب عذاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عذابوں سے بچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں!
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں!
ہم نے سوچ رکھا ہے
تم سے کچھ نہیں کہنا
 
Top