ہم بزرگوں کو اس لئے پکارتے ہیں کہ یہ الله کہ ہاں ہماری سفارش کرتے ہیں

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913

پروردگار نے جو سب سے بڑا شرک بتایا ہے وہ یہی بتایا ہے.یہ لوگ بڑے چالاک اور ہوشیار اور زیرک ہیں.ان کو خود یہ خیال ہے کہ ہم ایسی بات کر رہے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہم پر تہمت لگ سکتی ہے جس کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے.اگر کوئی ان سے یہ پوچھ لے کہ یہ جو تم ان باباؤں کے دن مناتے ہو،انکو پکارتے ہو،انکے جھنڈے اٹھاتے ہو،انکے نام کی نذرونیاز کرتے ہو،مشکل کے وقت انکو آواز دیتے ہو،ساری بندگیاں یہیں انکے آستانوں پر جا کر پوری کرتے ہو،کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ الله کے برابر ہیں تو کہتے ہیں کہ نہیں،یہ حضرت کی درگاہ ہے،یہ ایسی اونچی بارگاہ ہے کہ ہم اس مقام تک کہاں پہنچ سکتے ہیں.ہم غریب لوگ ہیں ،ہماری کون سنتا ہے،یہ الله کہ محبوب ہیں.ہاں ان کو ہم ذریعہ بناتے ہیں.”مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَی” یہ ہم کو الله کے قریب کرتے ہیں.اور ہم انکی بندگی نہ کریں تو یہ کیسے خوش ہوں گے.اس لئے ہم اپنی جان لگا دیتے ہیں ،بندگی کی انتہا کر دیتے ہیں تا کہ یہ حضرات خوش ہو جایئں ،اور اس کے بعد الله کی بارگاہ میں ہماری بات پہنچا دیں .کیونکہ وہاں ہماری پہنچ نہیں سکتی اور ان کی ٹالی نہیں جاتی . اسی بارے میں مالک فرماتا ہے وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ ذرا دیکھو ان کی ہوشیاری کو کہ بندگی اور پوجا ان کی کر رہے ہیں جن کے مطالق ان کا خود خیال ہے کہ وہ مر گئے ہیں اور ان کو نہ نقصان سے بچا سکتے ہیں اور نہ نفع پہنچا سکتے ہیں .اور جب ان سے کوئی پوچھے کہ کیا یہ کم عقلی ہے،کے اپنے ہاتھ سے تم نے انکو اپنا معبود بنایا ہے ،تم تو خود ان کے خالق ہو .ان کی قبر اگر کچی پڑی رہتی،تم اس کو پختہ نہ کرتے ،اس کے اوپر گنبد تعمیر نہ کرتے کلس نہ لگاتے،اس کے مجاور نہ بنتے ،خود پہلے چڑھا وا نہ چڑھاتے تو اس کے بعد کون ان کو مانتا.جن کے تم خود ایک مجازی خالق ہو،ان کے آگے ماتھا ٹیک رہے ہو،فرمایا اگر کوئی ان کو چھیڑ دے کہ یہ کیا بے عقلی ہے تو کہتے ہیں”هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ ”کہ لاریب ،آسمان والے کی بات اور ہے لیکن یہ ہمارے سفارشی ہیں الله تک ہماری بات پہنچاتے ہیں.الله تعالی فرماتا ہے:” أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ” تم لوگ الله کو اپنی دریافت بتاتے ہو اس کو اپنی سفارشی بتاتے ہو،اس کو ایک ایسی بات کی خبر دیتے ہو کہ اس نے آسمان اور زمین بناے اور اس نے تو کوئی ایسا سفارشی اور بات پہنچانے والا نہیں بنایا کہ بندوں کو جب کوئی تکلیف ہو تو ان کو یہ سہارا مل جاۓ ،یہ حضرت کے پاس جایئں اور حضرت ان کی بات الله تک پہنچا دیں اور میں تو اپنے دوسرے کاموں میں لگا ہوتا ہوں ،میں ہر وقت موجود نہیں ملتا.تم الله کو وہ چیز بتاتے ہو جو اس نے آسمان اور زمین کو بنانے کے بعد نہیں بنائی .” سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ فرمایا یہ بہت بڑا شرک ہے.اور الله اس شرک سے بہت بلند و بالا اور پاک ہے. مالک فرماتا ہے وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ یعنی اس سے بڑا بھٹکا ہوا اور کون ہے جو قبروالوں ں،مزاروالوں کو مدد کے لئے پکارے جو قیامت تک انکی پکاروں کا جواب نہیں دے سکتے ،اور جواب دیں بھی کیسے ”وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ وہ تو انکی پکاروں سے ہی غافل ہیں ،وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ،انکو کیا خبر ،اور ہاں اگر یہ انبیا اور صلحا تھے.تو مالک جب انکو بتاۓ گا کہ تمہارے ساتھ یہ سلوک ہوا ہے وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ اور جب لوگ جمع کے جایئں گے حشر کے میدان میں ،اور الله انکو بتاۓ گا کہ تمہارے ساتھ انھوں نے یہ سلوک کیا،میرا حق تمہاری جھولی میں ڈالا ہے .کیا کہتے ہو،الله فرماتا ہے کہ یہ لوگ اپنے بچاریوں کے دشمن ہو جایئں گے” كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ ” اور ان کی بندگیوں کے سارے طریقوں کا کفر کرینگے اور کہیں گے کہ ہم نے تم کو کب کہا تھا کہ ہماری بندگی کرو ،ہمیں الله کے ساتھ شریک ٹہراؤ ،ہم نے تم کو کہا تھا کہ الله کے بندے بن جاؤ جیسے کہ ہم بندے ہیں .تو یہ سب الله نے بتا دیا اور فرمایا کہ یہ ایسے چالاک ہیں کہ فوراً کہتے ہیں کہ اچھا ! بادشاہ کے پاس کوئی عرضی پہنچانا ہوتو کیا آپ براہ راست پہنچ کر بادشاہ کے ہاتھ میں پکڑا دیں گے ،ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ کسی درباری کو ڈھونڈتے ہیں کہ وہ وزیر تک پہنچے ،پھر وزیر بادشاہ تک پہنچتا ہے.مالک کائنات نے اسی بات کو قرآن میں رد کیا ہے،فرمایا: ” فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ ” کہ تم دنیا کہ درباری وزیر اور بادشاہ پر قیاس کر کے الله کے لئے اس قسم کی مثالیں بیان نہ کرو ،نادانو!اس فرق کو سمجھو کہ” إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ” کہ سفارش کرنے والا تو وہ ہوتا ہے جو بادشاہ سے جا کر کہتا ہے کہ حضور اختیارات آپ کے پاس زیادہ ہیں لیکن علم میرے پاس زیادہ ہے،یہ میرا بھائی ہے پڑوس میں رہتا ہے بڑا خدمات گزار بھی ہے بڑا ایماندار بھی ہے،آپ کو اختیار میسر ہے،مجھ پر اعتماد کیجئے،آپ اسے نہیں جانتے،میں جانتا ہوں.تو مالک کائنات فرماتا ہے کہ بادشاہ اس لئے وزیر کا خیال کرتا ہے کہ وزیر کے بغیر اس کا کام نہیں چلتا،اسے پوراعلم نہیں ہے کہ اسکی حکومت میں کیا ہو رہا ہے،کہاں بغاوت ہونے والی ہے،کون فرمابردار ہے،خزانے کا کیا حال ہے.اس لئے اس نے وزیر کے ذریعے سے یہ قائدہ مقرر کر دیا ہے کہ وہ وزیر سے پوچھے اور وزیر اسے بتاۓ ،تب اسکو خبر ہوگی لہذا فرمایا : ” إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ” یعنی مالک کائنات تو ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے،اس کو کون بتاۓ گا،وزیر کی طرح سے کہ اختیارات آپ کے پاس زیادہ لیکن علم مجھے ہے.لیکن اس سارے افسانے کو جو انھوں نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے گھڑ لیا ہے،ان کی ساری دلیلوں کو الله نے قرآن میں رد کر دیا ہے.

 
Top