یمن کی مملکتیں اور قرآن

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913



یمن کی مملکتیں اور قرآن

مملکت حمیر (١) قدیم یمن میں ایک حکومت رہی جس نے ایک وقت میں تمام یمن اور حضر الموت پر حکومت کی

Ḥimyarite Kingdom or Ḥimyar

مملکت حمیر کا آغاز ١١٠ قبل مسیح سے ہوا-

مملکت سبا پر ٢٥ بعد مسیح میں اس نے قبضہ کیا، مملکت قتبان پر ٢٠٠ بعد مسیح میں اور قریب ٣٠٠ بعد مسیح میں حضر الموت پر انہوں نے قبضہ کیا – یہ تمام علاقے قدیم یمن میں تھے- تیسری صدی بعد مسیح میں اس میں مملکت السبئيون بھی شامل ہو گئی- یہ ابتداء میں مشرک قبائلی مملکت تھی جو حجاز تک اثر و رسوخ رکھتی تھی- اسی کے آس پاس دور میں سمندر پار افریقہ میں ایک ممکت اکثوم نے عیسائی مذھب اختیار کیا-



مملکت حمیر کے ایک بادشاہ أبو كرب أسعد یا أسعد أبو كُرَيْب بن مَلْكيكرب یا اسعد الكامل یا التبع نے حمیر پر ٣٩٠ سے ٤٢٠ ع تک حکومت کی- کہتے ہیں اس نے یثرب پر حملہ کیا تاکہ وہاں بڑھتے ہوئے عیسائی بازنیطی اثر کو ختم کرے- اس جنگ میں یہودیوں نے بھی مملکت حمیر کا ساتھ دیا – لیکن التبع وہاں بیمار ہو گیا حتی کہ کسی چیز سے شفا یاب نہ ہو سکا- یہ ایک مشرک تھا لیکن یثرب کے یہودیوں احبار نے اس کو جھاڑا اور یہ ٹھیک ہو گیا- اس سے متاثر ہو کر اس نے یہودی مذھب قبول کیا – اس طرح مملکت حمیر ایک یہودی ریاست بن گئی- اس کی قوم کا قرآن میں ذکر ہے

الله تعالى کہتا ہے : أَهُمْ خَيْرٌ أَمْ قَوْمُ تُبَّعٍ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ أَهْلَكْنَاهُمْ إِنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ الدخان ٣٧ میں

کیا یہ (مشرکین مکہ) بہتر ہیں یا تبع کی قوم اور جو ان سے قبل گزرے جن کو ہم نے ہلاک کیا یہ سب مجرم تھے

اور

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَأَصْحَابُ الرَّسِّ وَثَمُودُ . وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوطٍ . وَأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ وَقَوْمُ تُبَّعٍ كُلٌّ كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِيدِ سوره ق ١٢ سے ١٤ میں

ان (مشرکین مکہ) سے قبل قوم نوح اور اصحاب الرس اور ثمود اور عاد اور فرعون اور قوم لوط اور َأَصْحَابُ الْأَيْكَةِ اور َقَوْمُ تُبَّعٍ کو ہلاک کیا سب نے رسولوں کا انکار کیا پس ان پر وَعِيدِ ثبت ہوئی


ابو داود کی حدیث ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

لا أدري تبع لعينًا كان أم لا


میں نہیں جانتا کہ تبع، مردود ہے یا نہیں

یعنی تبع کے اس تبدیلی ایمان میں وہ صحیح تھا یا نہیں اس کی خبر نہیں دی گئی لیکن اس کی قوم کو برا کہا گیا ہے- کعب الاحبار کا قول ہے ذم الله تعالى قومه ولم يذمه الله نے اس کو برا نہیں کہا اس کی قوم کو کہا ہے

بحر الحال قوم تبع الحمیر یہودی ہوئی اور حبشہ واکثوم کے عیسائیوں سے اس کی ٹھن گئی حتی کہ اکثوم نے حمیر پر حملہ کیا اور اس کے شاہ ذو نواس کو معذول کر دیا – عرب میں عیسائی اور یہودی مذھب کی تبلیغ کی وجہ سے یمن کے کچھ قبائل نے عیسائی مذھب کو قبول کیا اور یمن کا نجران کا علاقہ بھی عیسائی مذھب کا حامل ہوا- مملکت حمیر کے یہودی بادشاہ ذونواس جس کا نام یوسف تھا اس نے واپس اپنا علاقہ بزور بازو حاصل کیا اور اپنے علاقے کے لوگوں کو جبرا یہودی مذھب اختیار کرنے کا حکم دیا – بظاہر حمیر یہودیت کے قائل تھے لیکن ان کے عقائد مشرکانہ ہو چکے تھے- اس زبر دستی میں ذونواس نے ایک بڑا قدم اٹھایا – اس نے اگ جلانے کا حکم دیا اور اس میں ٢٠ ہزار مردوں، عورتوں اور بچوں کو پھینکا گیا جنہوں نے شرکیہ عقیدہ اختیار نہیں کیا تھا – اس کا ذکر قرآن میں ہے

وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ وَشَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُود النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ

إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ وَهُمْ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ

الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ

آسمان کی قسم جس میں برج ہیں، اور اس دن کی جس کا وعدہ ہے، اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اسکی- کہ خندقوں (کے کھودنے) والے ہلاک کر دیئے گئے- یعنی) آگ (کی خندقیں) جس میں ایندھن (جھونک رکھا) تھا- جب کہ وہ ان (کے کناروں) پر بیٹھے ہوئے تھے- اور جو (سختیاں) اہل ایمان پر کر رہے تھے ان کو سامنے دیکھ رہے تھے- ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی کہ وہ الله پر ایمان لائے ہوئے تھے جو غالب (اور) قابل ستائش ہے- وہی جس کی آسمانوں اور زمین میں بادشاہت ہے۔ اور الله ہر چیز سے واقف ہے- جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو تکلیفیں دیں اور توبہ نہ کی ان کو دوزخ کا (اور) عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی ہوگا – (اور) جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہ ہی بڑی کامیابی ہے

اس کا ذکر عیسائی یونانی کتاب میں بھی ہے اور مارٹم سنکٹی ارتھاۓ کے نام سے مشھور ہے

Martyrium Sancti Arthae

یہ واقعہ نجران میں ٥٢٣ ع یا ١٠٣ قبل ہجری میں ہوا-

صهيب الرومي المتوفی ٣٩ ھ سے عبد الرحمن بن أبي ليلى (ولادت ٢١ ہجری اور وفات ٨٣ ھ ) نے ایک روایت صحیح مسلم اور مصنف عبد الرزاق بیان کی ہے جس کے مطابق اصحاب الخدود کا واقعہ ماضی میں پیش آیا – عبد الرحمن بن أبي ليلى مدلس ہیں اور اس کی ہر سند کو عن سے روایت کرتے ہیں- البتہ اس میں صَوْمَعَةٍ اور راہبوں کا ذکر کرتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ اس میں مسلمان لوگوں سے مراد اہل کتاب تھے جو عیسیٰ پر ایمان لائے تھے لیکن موحد تھے- مصنف میں محدث عبد الرزاق کہتے ہیں

قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: «وَالْأُخْدُودُ بِنَجْرَانَ» اور عَبْدُ الرَّزَّاقِ کہتے ہیں خندقوں والے نجران میں تھے

عبد الرزاق کا تعلق بھی یمن سے ہے

اس واقعہ کو سن کر اکثوم کے بادشاہ کلیب نے ایک لشکر بھیجا اور سن ١٠١ قبل ہجری بمطابق سن ٢٢٥ ع میں مملکت اکثوم کی بازنیطی عیسائی ریاست کے ہاتھوں مملکت حمیر تباہ ہوئی اور آخری یہودی بادشاہ ذو نواس نے خود کشی کر لی

کہا جاتا ہے کہ اکثوم کے شاہ کلیب کے دوسرے لشکر نے جس نے یمن پر حملہ کیا اس کا جنرل أبرهة تھا ایک لڑائی میں اس کے چہرے پر زخم آیا اور اس کا نام الأشرم پڑ گیا- اس کے لشکر کے پاس ایک لاکھ افریقی ہاتھی تھے – أبرهة الأشرم ، یمن کے علاقے پر اکثوم کا وائس رائے بن کر حکومت کرتا رہا حتی کہ اس نے خود کو یمن کا آزاد حاکم قرار دے دیا اور اکثوم کا باغی ہوا- یہ عیسائیت کو پسند کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ تمام عرب کعبہ اللہ کو چھوڑ کر یمن میں اس کے تعمیر کردہ کلیسا (جس کو کعبہ النجران کہا جاتا تھا ) کا حج کریں- سن ٥٧٠ بمطابق ٥٣ قبل ہجری میں اس بد بخت نے کعبہ اللہ کو منہدم کرنے کا ایک منصوبہ بنایا اور اپنا ہاتھیوں کا لشکر لے کر مکہ پہنچ گیا- کہا جاتا ہے کہ مشرکین میں سے کسی شخص نے اس کے بنائے نقلی کعبہ میں جا کر پاخانہ کر دیا جس پر یہ باولا ہوا اور یہ قدم اٹھایا لیکن یہ واقعہ خود أبرهة کی ایک چال بھی ہو سکتا ہے کیونکہ الله تعالی کہتا ہے کہ الله نے أبرهة کی چال کو ناکام کر دیا

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ

أَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ

وَأَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا أَبَابِيلَ

تَرْمِيهِم بِحِجَارَةٍ مِّن سِجِّيلٍ

فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّأْكُولٍ

کیا تم نے دیکھا؟ کیا کام کیا تمھارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ! کیا ان کی چال کو ناکام نہ کر دیا ؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ در جھنڈ اتارے، جو ان پر مٹی کے پتھر پھینک رہے تھے، پس ان کو چبے ہوئے بھوسے جیسا کر دیا

اس واقعہ سے بیت الله کی ہیبت سارے عرب میں پھیل گئی اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ اہل کتاب اس گھر کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو



ابرہہ کا لشکر منی اور مزدلفہ کے درمیان وادی محسر میں تباہ ہوا
النجاشی

النجاشی اصحمہ (١) بن ابجر رضی الله عنہ المتوفی ٦٣٠ ع بمطابق ٩ ہجری اکثوم کے بادشاہ تھے اور عرب اکثوم کو الحبشہ کہتے تھے

اصل نام Sahama (١)

النجاشی نام نہیں بلکہ ٹائٹل ہے جس کا مطلب شاہ ہے جو اکثوم کے تمام بادشاہوں کے لئے بولا جاتا تھا

مکہ میں جب مشرکین نے مسلمانوں پر تشدد سخت کیا تو نبی صلی الله علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا اور ایک خط بھی ان کی طرف بھیجا مشرکین نے بھی اپنے ایلچی بھیجے کہ ان لوگوں کو ہمارے حوالے کر دیں لیکن النجاشی نے انکار کر دیا

نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ بھی پڑھائی اور آپ کو ان کی وفات کی خبر وحی کی گئی


 
Top