یہودی، نصرانی اور غناسطی تصوف کے اسلام پر اثرات

  • Work-from-home

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913



ازمنہ قدیم سے اس کرہ ارضی پر انسان کے دو گروہ رہے ہیں. ایک گروہ یہ سمجھتا آیا ہے کہ وہ خدا تک اپنے مراقبہ اور تپسیا کے ذریعے سے پہنچ سکتے ہیں. اس ذریعہ یا طریقہ کار میں انسانی روح کو دنیاوی قید و بندھن سے آزاد کرنا ہوتا ہے. الله تک رسائی کایہ ازمنہ قدیم سے استعمال میں ہے اور ہم انکے کرنے والوں کو سادھو یا راہب کے نام سے جانتے ہیں

اس سوچ کے خلاف ایک دوسرا گروہ بھی ہے جو یہ مانتا ہے کہ الله تک رسائی اس طرح نہیں ہو سکتی. الله ہمارا خالق اور پالنہار ہے لہذا ہدایت بھی اسی کی طرف سے آنی چاہیے. الله نے انبیاء و رسل کو انسانوں میں سے منتخب کیا اور ان پر وحی بھیجی ہے. اسلام، نصرانیت اور یہودیت اصلاً اس گروہ سے تعلّق رکھتے ہیں

اسلام اصلاً ایک خالص توحیدی دین سے شروع ہوا لیکن یہودی، نصرانی، ہرمسی اور غناسطی سرّیت و تصوف سے متاثر ہوا. اس کتابچہ میں انہی لہروں کے امتزاج کا نقشہ پیش کیا گیا ہے. لہذا کتابچہ کا نام مجمع البحرین رکھا ہے یعنی وہ مقام جہاں دو سمندرآپس میں ٹکرائیں یا مل کر اپنی انفرادیت کھو بیٹھیں. جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اس امتزاج کی اصل وجہ شاید نقل اور سرقہ نہیں بلکہ اس مشابہت کا راز راہب اور تپسوی کے اس طریقہ کار میں پوشیدہ ہے جو انسان کی اجتماعی سوچ اور اس کی محدودیت کا عکاس ہے

مکّہ میں رات کا وقت ہے. محمّد صلی الله علیہ وسلم ، ایک ایسے رب کی عبادت میں مشغول ہیں جو نظر نہیں آتا. محمّد آج اس مقام پر اپنے خوابوں کی وجہ سے ہیں . انہوں نے نہ ہی کوئی مکاشفہ دیکھا ہے اور نا ہی مراقبہ کیا ہے. انہوں نے صرف سچے خواب دیکھے ہیں جو صبح کی روشی کی طرح حقیقت آشکار ہو رہے ہیں. محمّد جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے. لہذا وہ اس کی حقیقت کی تلاش میں کوہ حرا پر غار میں آئے ہیں اور یہاں التحنث (الله کے قرب کی عبادت ) میں مشغول ہیں. انہوں نے ابھی یہ چند ایام ہی کیا تھا کہ ایک فرشتہ صورت انسانی میں نمودار ہوا اور کہا



اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5)


پڑھ ! اپنے رب کے نام سے، جس نے تجھ کو خلق کیا. انسان کو خلق کیا، خوں کے لوتھڑے سے. پڑھ! کہ تیرا رب بہت کرم والاہے. جس نے انسان کو قلم سے سکھایا ہے. انسان کو وہ کچھ سکھایا ہے جس کو انسان نہیں جانتا تھا


اگلے ٢٣ سال میں وحی الہی کا نزول ہوتا ہے جس کو آج ہم قرآن کہتے ہیں. محمّد صلی الله علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ اب یہ آخری رابطہ ہے جو الله نے اپنی انسانی مخلوق سے کیا ہے. اور یہ پیغام سادہ ہے کہ



وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْ السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
(153)


اور بے شک یہ رستہ میرا سیدھا رستہ ہے، پس اس پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو کیونکہ یہ تم کو سیدھی راہ سے بھٹکا دیں گی. اور یہ تم کو وصیت کی جاتی ہے تاکہ تم متقی بنو


الله نے سوره البقرہ، آیت ٢٥٦ میں کہا

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

الدین (اسلام ) میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے الگ ھو چکی ہے پس جس نے طاغوت کا کفر کیا اور الله پر ایمان لایا اس نے مظبوط حلقہ تھام لیا جو ٹوٹنے والا نہیں اور الله سننے والا جاننے والا ہے



الله نے بتایا کہ ساری انسانیت کا ایک ہی دین تھا

وإِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ

(52)


اور بے شک یہ تمہاری امّت (دین) ایک ہی امت ہے اور میں ہی تمہارا رب ہوں، لہذا مجھی سے ڈرو


انبیاء کی دعوت اصل میں میں ایک ہی دعوت ہے. الله سوره الشوریٰ میں کہتا ہے

شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ (13) وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ (14) فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَقُلْ آَمَنْتُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ كِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ
(15)


الله نے تمہارے لئے اسی دین کا حکم دیا ہے جس کا حکم اس نے تم سے پہلے نوح کو دیا، جس کو تم پر اے محمّد نازل کیا اورجس کا حکم ابراہیم کو، موسیٰ کو اورعیسیٰ کو کیا کہ دین کو قایم کرو اور اس میں فرقے نہ بنو. مشرکوں پر تمہاری دعوت بہت گراں گزرتی ہے . الله جس کو چاہتا ہے چنتا ہے اور اپنی طرف ہدایت دیتا ہے رجوع کرنے والے کو. اور انہوں نے اختلاف نہ کیا ، لیکن علم آ جانے کے بعد آپس میں عداوت کی وجہ سے. اور اگر یہ پہلے سے تمہارے رب نے (مہلت کا ) نہ کہا ہوتا تو ان کا فیصلہ کر دیا جاتا. اور بلاشبہ جن کو ان کے بعد کتاب کا وارث (یہود و نصاریٰ) بنایا گیا تھا وہ اس بارے میں سخت خلجان میں مبتلا ہیں. پس ان کو تبلیغ و تلقین کرو اور استقامت اختیار کرو جیسا حکم دیا گیا ہے اور ان کی خواہشات کی اتباع نہ کرو بلکہ کہو: میں اس کتاب پر ایمان لایا ہوں جو الله نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں ، الله ہی میرا اور تمہارا رب ہے. ہمارے لئے ہمارا عمل اور تمہارے لئے تمہارا عمل. ہمارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں . بے شک الله ہم سب کو جمع کرے گا اور ہمیں اسی کیطرف پلٹنا ہے


اس کا مطلب یہ ہوا کہ سارے انبیاء ایک ہی دین پر تھے جس کا اصل توحید، انکار طاغوت، آخرت کا خوف اور الله کی مغفرت کی امید تھا. نبی صلی الله علیہ وسلم نے (صحیح مسلم) فرمایا

الأنبياء إخوة من علات وأمهاتهم شتى ودينهم واحد

انبیاء آپس میں بھائی بھائی کی طرح ہیں جن کی مائیں جدا ہوں اور ان سب کا دین ایک ہے


ان آیات کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ اب الله کو جاننے کے لیے کسی اور ذریعہ کی ضرورت نہیں. الله کی طرف سے وحی آ چکی ہے. اس کے باوجود انسانیت نے ایک دوسرے طرق کو استعمال کیا جس کو سرّیت و تصوف کہتے ہیں

الله تعالی سوره الحدید میں کہتا ہے


ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الإنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْ تَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ
(27)


پھر اس کے بعد ہم نے اپنے انبیاء اور عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا اور اس کو انجیل دی اور ان ماننے والوں کے دلوں میں رحم اور رقت ڈال دی اور رہبانیت کو انہوں نے شروع کیا تاکہ الله کی رضا حاصل کریں ، ہم نے اس کا حکم نہ دیا تھا، لیکن وہ اس کو کما حقہ ادا نہ کر سکے پس ہم نے ایمان والوں کو اجر دیا اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں


ان وجوہات کی بنا پر اسلام کے ابتدائی دور میں تصوف کی کوئی نظیر نہیں ملتی. اور سرّیت و تصوف کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھا گیا. لیکن ایک غیر محسوس انداز میں یہ آج اسلام میں سب سے زیادہ چلتا دھرم ہے اور اس کو شریعت کے مقابل طریقت کا نام دیا گیا ہے. قارئین اس کتابچہ کو پڑھتے ہوۓ متحیر ہوں گے کہ کس طرح یہودی، نصرانی اور غناسطی سرّیت و تصوف کو مشرف با اسلام کیا گیا ہے








 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913



ابتداء سے ہی یہودی سرّیت میں دلچسپی لیتے رہے ہیں، چاہے یہ سحر و کہانت ہو یا مردوں اور روحوں کے ذریعے غیب بینی. اگرچہ ان کو ہمیشہ اس سے منع کیا گیا لیکن ان کی یہ دلچسپی برقرار رہی. آج یہودیت میں مروجہ سرّیت و تصوف کے کا نقطہ آغاز، قدیم بابل میں ہے. اپنے بیہودہ مقاصد کی تکمیل کے لیے بابل میں یہودی سحر میں مبتلا ہوۓ اور انہوں نے اس کو سلیمان علیہ السلام سے منسوب کیا.

Merkabah Mysticismمرکبہ سرّیت



حزقی ایل کی کتاب کے مطابق، حزقی ایل کا تعلّق پروہت طبقہ سے تھا اور اناتہوت کے رہنے والے تھے. وہ یہودیوں کے اشرفیہ میں سے تھے جن کو بابلی غلام بنا کر بابل میں لے آئے تھے. دریائے الخابور کے کنارے بابل میں ، تل آبیب میں حزقی ایل نے ایک عجیب مکاشفہ دیکھا. انہوں نے دیکھا کہ ایک بہت عظیم رتھ ہے جس کو چاروں جانب فرشتوں نے گھیرا ہوا ہے ( حزقیایل باب ١: ٢٨). اس رتھ کو حزقی ایل مرکبہ بولتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس میں نوراور بجلی کی کڑک تھی اور یہ بادلوں میں تھا. آگے جا کر اسی رتھ نے اہمیت اختیار کر لی اور باقاعدہ مرکبه سرّیت کے عنوان سے یہودیوں میں سرّیت و تصوف کا آغاز ہوا جس کو مرکوه سرّیت بھی کہا گیا[1]. اس سرّیت کی ابتدا کا اندازہ ہے کہ ١٠٠ ق م سے لے کر ١٠٠٠ ب م تک ہے. گویا یہ طریقۂ کار عیسیٰ علیہ السلام سے ١٠٠ سال پہلے شروع ہوا اور نبی صلی الله علیہ وسلم کے دور میں بھی اس پر عمل ہوتا رہا

حزقی ایل کے مکاشفہ میں مرکبہ پر انسانی شکل میں موجود ایک شخص سارے ملائکہ کو تدبیر عمل دے رہا ہوتا ہے. حزقی ایل باب ١: ٢٦ میں لکھتے ہیں
[2]

וּמִמַּעַל, לָרָקִיעַ אֲשֶׁר עַל-רֹאשָׁם, כְּמַרְאֵה אֶבֶן-סַפִּיר, דְּמוּת כִּסֵּא; וְעַל, דְּמוּת הַכִּסֵּא, דְּמוּת כְּמַרְאֵה אָדָם עָלָיו, מִלְמָעְלָה


And above the firmament that was over their heads was the likeness of a throne, as the appearance of a sapphire stone; and upon the likeness of the throne was a likeness as the appearance of a man upon it above.

اور آسمان سے اوپر جو ان کے سروں پر تھا ایک عرش تھا جیسا کہ نیلم کا پتھر ہوتا ہے اور اس عرش نما پر ایک انسان نما تخت افروز تھا


یہودیت میں ان آیات کی تشریح منع ہے اور اگر کی بھی جاۓ تو وہ بھی خفیہ اور اجازت کے بعد

یوشع بن سیرا کی کتاب الحکمت میں ہے کہ

Seek not out the things that are too hard for thee, neither search the things that are above thy strength. But what is commanded thee, think thereupon with reverence; for it is not needful for thee to see with thine eyes the things that are in secret[3].

اور ان باتوں کی ٹوہ میں نہ لگو جن کو جاننا گراں گزرے، اور نہ ہی ان باتوں کی تلاش میں رہو جو بساط سے باہر ہوں ، بلکہ جو حکم دیا گیا ہے اس پر احترام کے ساتھ غور کرو، یہ تمھارے لئے ضروری نہیں کہ ان چیزوں کو اپنی آنکھ سے دیکھو جو راز ہیں


چناچہ کچھ مضامین صرف خواص کے لئے تھے جو ان تحریرات کے رمز و حقائق تک پہنچ سکتے تھے. خواص کا یہ علم عوام کے لئے نہ تھا. حزقی ایل کے اس عجیب و دہشت ناک مکاشفہ نے یہودیوں کو اس کی کے اسرار کی طرف متوجہ کیا اور مرکبہ سرّیت کا آغاز ہوا جس کا مقصد عرش الہی اور ملاء اعلی کے معاملات کے علم کی رسائی تھا. سرّیت کی طرف اس رجحان کا آغاز اسلام سے پہلے ہو چکا تھا
[4]

تو، تو ہے

نبی صلی الله علیہ وسلم کے بعد اسلام میں ایک شخص بنام عبداللہ بن سبا[5] نمودار ہوا. یہ اصلاً یمنی یہودی تھا اور اسلام لانے کا دعویدار تھا. اس نے جن عقائد کو پھیلایا ان سے مسلمان ناواقف تھے. مسلمان مورخین خود اس کے حوالے سے خلجان میں رھے ہیں کہ یہ کون تھا کیونکہ اس کے عقائد اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے اور عام خیال سے یہودیت سے بھی مطابقت نہیں رکھتے

الشھرستانی اپنی کتاب الملل و النحل ص ٥٠ پر لکھتے ہیں

السبائية أصحاب عبد الله بن سبأ؛ الذي قال لعلي كرم الله وجهه: أنت أنت يعني: أنت الإله؛ فنفاه إلى المدائن. زعموا: أنه كان يهودياً فأسلم؛ وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وصي موسى عليهما السلام مثل ما قال في علي رضي الله عنه. وهو أول من أظهر القول بالنص بإمامة علي رضي الله عنه. ومنه انشعبت أصناف الغلاة. زعم ان علياً حي لم يمت؛ ففيه الجزء الإلهي؛ ولا يجوز أن يستولي عليه، وهو الذي يجيء في السحاب، والرعد صوته، والبرق تبسمه: وأنه سينزل إلى الأرض بعد ذلك؛ فيملأ الرض عدلاً كما ملئت جوراً. وإنما أظهر ابن سبا هذه المقالة بعد انتقال علي رضي الله عنه، واجتمعت عليع جماعة، وهو أول فرقة قالت بالتوقف، والغيبة، والرجعة؛ وقالت بتناسخ الجزء الإلهي في الأئمة بعد علي رضي الله عنه.


السبائية : عبداللہ بن سبا کے ماننے والے ۔ جس نے علی كرم الله وجهه سے کہا کہ: تو، تو ہے یعنی تو خدا ہے پس علی نے اس کو مدائن کی طرف ملک بدر کر دیا ۔ ان لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ (ابن سبا) یہودی تھا پھر اسلام قبول کر لیا ۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰ کا جانشین یوشع بن نون تھا اور اسی طرح علی ( اللہ ان سے راضی ہو) ۔ اور وہ (ابن سبا) ہی ہے جس نے سب سے پہلے علی کی امامت کے لئے بات پھیلآئی ۔ اور اس سے غالیوں کے بہت سے فرقے وابستہ ہیں ۔ ان کا خیال تھا کہ علی زندہ ہے اور انتقال نہیں کر گئے ۔ اور علی میں الوہی حصے تھے اور الله نے ان کو لوگوں پر ظاہر کرنے کے لئے اجازت نہیں دی ۔ اور وہ (علی) بادلوں کے ساتھ موجود ہیں اور آسمانی بجلی ان کی آواز ہے اور کوند انکی مسکراہٹ ہے اور وہ اس کے بعد زمین پر اتریں گے اور اس کو عدل سے بھر دیں گے جس طرح یہ زمین ظلم سے بھری ہے۔ اور علی کی وفات کے بعد ابن سبا نے اس کو پھیلایا۔ اور اس کے ساتھ (ابن سبا) کے ایک گروپ جمع ہوا اور یہ پہلا فرقہ جس نے توقف (حکومت کے خلاف خروج میں تاخر)، غیبت (امام کا کسی غار میں چھپنا) اور رجعت (شیعوں کا امام کے ظہور کے وقت زندہ ہونا) پر یقین رکھا ہے ۔ اور وہ علی کے بعد انپے اماموں میں الوہی اجزاء کا تناسخ کا عقید ہ رکھتے ہیں



ابن اثیر الکامل فی التاریخ ج ٢ ص ٨ پر لکھتے ہیں

أن عبد الله بن سبأ كان يهودياً من أهل صنعاء أمه سوداء، وأسلم أيام عثمان، ثم تنقل في الحجاز ثم بالبصرة ثم بالكوفة ثم بالشام يريد إضلال الناس فلم يقدر منهم على ذلك، فأخرجه أهل الشام، فأتى مصر فأقام فيهم وقال لهم: العجب ممن يصدق أن عيسى يرجع، ويكذب أن محمداً يرجع، فوضع لهم الرجعة، فقبلت منه، ثم قال لهم بعد ذلك: إنه كان لكل نبي وصي، وعلي وصي محمد، فمن أظلم ممن لم يجز وصية رسول الله، صلى الله عليه وسلم، ووثب على وصيه، وإن عثمان أخذها بغير حق، فانهضوا في هذا الأمر وابدأوا بالطعن على أمرائكم…



عبداللہ بن سبا صنعاء، یمن کا یہودی تھا اس کی ماں کالی تھی اور اس نے عثمان کے دور میں اسلام قبول کیا. اس کے بعد یہ حجاز منتقل ہوا پھربصرة پھر کوفہ پھر شام، یہ لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس میں کامیاب نہ ھو سکا. اس کو اہل شام نے ملک بدر کیا اور یہ مصر پہنچا اور وہاں رہا اور ان سے کہا: عجیب بات ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ عیسیٰ واپس ائے گا اور انکار کرتے ھو کہ نبی محمّد صلی الله علیہ وسلم واپس نہ آیئں گے. اس نے ان کے لئے رجعت کا عقیدہ بنایا اور انہوں نے اس کو قبول کیا. پھر اس نے کہا : ہر نبی کےلئے ایک وصی تھا اور علی محمّد کے وصی ہیں لہذا سب سے ظالم وہ ہیں جنہوں نے آپ کی وصیت پر عمل نہ کیا. اس نے یہ بھی کہا کہ عثمان نے بلا حق، خلافت پر قبضہ کیا ہوا ہے لہذا اٹھو اور اپنے حکمرانوں پر طعن کرو

مسلمان مورخین عموما یہ کہتے ہیں کہ ابن سبا کے مقاصد سیاسی تھے اور اس نے دین کوایک ہتھیار کے طور پر استمال کیا تاکہ لوگوں کو جمع کر سکے. چناچہ اس نے نئی اصطلاحات ایجاد کیں. تقریبا تمام سنی مورخین نے اس کو غالی شیعہ فرقوں میں شمار کیا ہے. لیکن ان اصطلاحات کے پیچھے چھپے خفیہ یہودی ایجنڈا کی کھوج نہیں کی گئی

اس کے عقائد کی جڑ یہودی تصوف میں جا کر ملتی ہے اور بڑے واضح یہودی اثرات نظر اتے ہیں. مثلا توریت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے الله سے کہا جب ان کو جلتے ہوۓ درخت میں دیکھا کہ میں فرعون سے کیا کہوں کہ کس سے ہم کلام ہوا؟ الله نے کہا (خروج باب ٣ : ١٤) کہو

אֶהְיֶה אֲשֶׁר אֶהְיֶה

اھیے اشر اھیے (عبرانی میں) أنا هو الذي هو (عربی میں) میں(وہ ہوں جو) میں ہوں

البدء والتاريخ ص ١٤ پر لکھتے ہیں اپنی کتاب ابن المطهر بن طاهر المقدسي

وقول اليهود بالعبرانية ايلوهيم ادناي اهيا شراهيا ومعنى ايلوهيم الله


اور یہود کا قول ہے (الله کے اسم کے بارے میں) کہ ايلوهيم، ادناي، اهيا شراهيا اور ايلوهيم کا مطلب الله ہے



اهيا شراهيا دراصل احیے عشر احیے کو معرب کیا گیا ہے. ابن العبري اپنی کتاب تاريخ مختصر الدول میں لکھتے ہیں

قال موسى: فان قالوا لي ما اسم ربك ماذا أقول لهم. قال: قل اهيا اشر اهيا أي الأزلي الذي لا يزال.


موسیٰ نے کہا: اگر وہ فرعونی مجھ سے پوچھیں کہ تمہارے رب کا نام کیا ہے تو میں کیا کہوں. الله نے کہا کہو : اهيا شراهيا یعنی میری ہمیشگی کو زوال نہیں


ابن منظور نے الصغانی کا قول نقل کیا ہے کہ
[6]

وهو اسم من أسماء الله جل ذكره ومعنى إهيا أشر إهيا الأزلي الذي لم يزل هكذا أقرأنيه حبر من أحبار اليهود بعدن أبين ) شَراهِيا معناه يا حيُّ يا قيُّومُ بالعِبْرانِيَّةِ


اور یہ الله کے اسماء میں سے ایک اسم ہے اور اھیا شراھیا کہ میری ہمیشگی کو زوال نہیں اور ایسا ہی عدن کے ایک احباروں میں سے یہودی حبر نے مجھے بتایا ہے کہ شراھیا کا مطلب عبرانی میں یا حی یا قیوم ہے

لہذا جب عبدللہ ابن سبا نے علی سے کہا تو، تو ہے ! تو اسکا مفہوم تھا کہ تو الله ہے چونکہ الله نے موسیٰ سے کہا تھا میں، میں ہوں. ابن سبا نے وہی طرز اختیار کیا اور اپنے ما فی ضمیر کو بیان کیا. اس طرز کو علی رضی الله تعالی عنہ فورا پہچان گئے. دوسرا علی کے بارے میں اس کا دعوی کہ وہ بادلوں میں ہیں اور بجلی کی کوند ان کی مسکراہٹ ہے . کچھ اور نہیں بلکہ حزقی ایل کے مرکبہ یا عرش پر موجود شخص سے مماثلت ہے

[7]

آیا ابن سبا علی میں حلول[8] کا مدعی تھا یا کسی اور یہودی عقیدے پر تھا، یہ واضح نہیں. اسلامی تصوف میں وہ ذات جو موسیٰ سے ہم کلام ہوئی وہ علی ہے اور اس ذات نے أنا الحق كا نعرہ لگایا



روا باشد أنا الحق از درختے

چرانبود روا از نیک بختے

اس فارسی شعر کا مفہوم ہے

اگر صداۓ أنا الحق ایک درخت سے جائز ہے

تو ایک نیک بندے سے کیوں نہیں



صوفیہ کے بہت سے سلسلوں میں ذکر الہی بہت اہم ہے. ان محفلوں کا نقطہ عروج اس وقت ہوتا ہے جب ھو ، ھا کی مسلسل ضربیں لگائی جاتی ہیں. اس میں بعض سامعین پر حال و وجد (پا لینا) کی کفیت طاری ہوتی ہے. ذکر میں جو ترکیب سب سے زیادہ مستعمل ہے وہ الله ھو کی ترکیب ہے جس کی قرآن و حدیث میں کوئی مثال نہیں، ہاں البتہ توریت کی کتاب خروج باب ٣ آیت ١٨ کی باذ گشت ضرور سنائی دیتی ہے. الله نے موسیٰ سے کہا تھا

أنا هو الذي هو

صوفیاء کہتے ہیں

الله هو الله هو

یہ صرف الفاظ کی تبدیلی ہے الله کو أنا سے بدل دیا گیاہے

، علم جفر، علم اعدادGematria گيمٹریا


سن ٣٣٤ ق م میں سکندر نے مشرق میں شام و فلسطین کو فتح کیا. اس کے نتجے میں يوناني أفكار و فلسفے کا یہودیت پر گہرا اثر ہوا. اب یہودی تصوف میں یونانی کلچر شامل ہوا . فلو جدیاس تصوف میں کافی دلچسپی رکھتے تھے . یہاں یہودیوں نے اسوپسفی[9] کو اپنے تصوف میں رائج کیا ، تاکہ کائنات کے سربستہ رازوں کو جانا جا سکے اس کو انہوں نے گيمٹریا [10] کا نام دیا. گيمٹریا کا سب سے پہلے استمال بھی فلو کے ہاں ہی ملتا ہے جس کا تعلّق دوسرے ہیکل کے دور سے ہے

مسلمان بھی اس ڈور میں پیچھے نہیں رہے انہوں نے بھی اسی طرح کا ایک طریقہ ایجادکیا جس کو ابجد، علم الاعداد یا علم جفر[11] کہا جاتا ہے. عبدللہ بن سنان کہتے ہیں کہ امام جعفر الصادق سے اولاد حسن کی کاروائیوں کا ذکر ہوا جو وہ بنو امیہ کے خلاف کر رہے تھے. امام الصادق نے کہا کہ ہمارے پاس

صحيفة طولها سبعون ذراعا بذراع رسول الله صلى الله عليه وآله وإملائه من فلق فيه وخط علي بيمينه

علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ستر ہاتھ لمبا پرچہ ہے جسکو الله کے نبی نے علی کو لکھوایا تھا

امام تھوڑی دیر خاموش رہے پھر گویا ہونے

وإن عندنا الجفر وما يدريهم ما الجفر ؟ قال قلت وما الجفر ؟ قال : وعاء من أدم فيه علم النبيين والوصيين ، وعلم العلماء الذين مضوا
من بني إسرائيل


ہمارے پاس جفر ہے. کیا ان کیا پتا کہ جفر کیا ہے؟ میں نے پوچھا امام یہ کیا ہے. امام علیہ السلام بولے: یہ کھال کا بنا ہوا ایک پرچہ ہے جس میں سابقہ انبیاء اور انکے وصیوں کا علم ہے. یہ بنی اسرائیل کے گزرے ہونے علماء کا علم ہے
[12]



الذهبی نے اپنی کتاب التفسیر و المفسرون میں ایک شاعر ابی العلآ المعری کا شعر لکھا ہے کہ

لقد عجبوا لأهل البيت لما أروهم علمهم فى مسك جفر

ومرآة المنجم وهى صغرى أرته كل عامرة وقفر


میں اہل بیت سے حیران ہوا جب انہوں نے جفر کو چھو کرعلم کا بیان کیا

اور مرآة المنجم اس میں ادنی ہے جو ہر آباد ودرویش کے لئے کارگر ہے

ابوبکر الشبلی (المتوفی ٨٦٤ ھ) کہتے ہیں

الله نے جب حروف خلق کیے تو اس نے ان کا راز پوشیدہ رہنے دیا اور جب آدم کو خلق کیا تو انکو اس کے اسرار سے اگاہ کیا لیکن کسی فرشتے کو یہ نہ پتا چل سکے[13]


النکت و العیون از الماوردی ج ١ ص ٩ کے مطابق ابجد حروف اسم اعظم کے حروف ہیں

أنها حروف من أسماء الله تعالى ، روى ذلك معاوية بن قرة ، عن أبيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم


بلا شبہ یہ الله تعالی کے نام کے حروف ہیں، اس کو معاویہ بن قرة نے اپنے باپ سے اور انہوں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے بیان کیا ہے


پہلے نقشے میں ابجد کا گیمٹریا سے تقابل کیا گیا ہے. عبرانی حروف کے مخارج کی مناسبت سے عربی حروف کو ترتیب دیا گیا ہے. جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ عبرانی حروف اپنی ترتیب ہی میں ہیں لیکن عربی حروف ترتیب میں نہیں. جس سے صاف ظاہر ہے کہ علم الاعداد، ابجد کا تعلّق عبرانی سے ہے اور اس کا تعلّق یہودی تصوف سے ہے.

علم الاعداد سے مستقبل کی رسائی کی جاتی ہے جبکہ علم ابجد سے ماضی میں جھانکا جاتا ہے

مثال ١ : عبرانی میں الله کا نام יהוה ہے جو عربی میں ي ه و ه بنتا ہے. ان حروف کے اعداد کا جمع ٢٦ بنتا ہے. اسی طرح ایک نام ایل ہے جس کا جمع ٣١ ہے

ي ه و ه

10+5+ 6+5=26

ایل= אל = 30+1 =31

مثال ٢: آدم کا لفظ عبرانی میں אָדָם ہے

אָדָם = آدم = 40+4+1=45


ہندسہ عبرانی عربی
ہندسہ عبرانی عربی

ہندسہ عبرانی عربی

1 الف אا

2 بیت בب

3 جیمل גج

4 دلد דد

5 ھے הه

6 و וو

7 زین זز

8 ہتھ חح

9 طتھ טط

10 ید יي

20 کاف כك

30 لمد לل

40 میم מم

50 نون נن

60 سمیخ סس

70 عين עع

80 ف פف

90 تصد צص

100 ق קق

200 رايش רر

300 شن שش

400 تاو תت

500 كاف(آخری) ךث

600 مم(آخری)םخ

700 نون(آخری) ןذ

800 ف(آخری) ףض

900 تصد(آخری)ץظ

1000 غ




 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913



مثال ٣: قرآن کی بعض سورتوں کی ابتداء میں حروف اتے ہیں جن کا مفہوم صرف الله کو پتا ہے. سوره البقرہ کے شروع میں الم اتا ہے جس کا عدد

الم = الم= 1+30+40=71

بنتا ہے. ان حروف کو تعویذات میں استعمال کیا جاتا ہے

سریت پر ایک قدیم یہودی کتاب سفر یزیرہ ہے، جس میں حروف کو عناصر اور سیاروں سے ملایا گیا ہے. کتاب کا مقصد کائنات کے اسرار کو منکشف کرنا ہے. کتاب سفر یزیرہ کے مصنف نے سات اعداد کو یونانی دور میں معلوم سات سیاروں سے جوڑا ہے. اسی طرح علم جفر میں آٹھ حرفی لفظ بنایے گئے ہیں

ابجد طریقہ کا پہلا لفظ ابجد چار حرفی ہے. دوسرا لفظ ھوز ، تین حرفی ہے. تیسرا لفظ حطی تین حرفی ہے. چوتھا لفظ کلمن چار حرفی ہے. پانچواں لفظ سعفص چار حرفی ہے. چھٹا لفظ قرشت چار حرفی ہے. ساتواں لفظ ثخذ اور آٹھواں لفظ ضظغ ، تین حرفی ہیں



طبری کتاب تاریخ الرسل و الملوک میں لکھتے ہیں

حدثني الحضرمي، قال: حدثنا مصرف بن عمر واليامي، حدثنا حفص ابن غياث، عن العلاء بن المسيب، عن رجل من كندة، قال: سمعت الضحاك ابن مزاحم يقول: خلق الله السموات والأرض في ستة أيام، ليس منها يوم إلا له اسم: أبجد، هوز، حطي، كلمن، سعفص، قرشت.

الضحاك ابن مزاحم نے کہا: الله نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، کوئی دن ایسا نہیں جس کا نام نہ ھو (دنوں کے نام تھے) أبجد، هوز، حطي، كلمن، سعفص، قرشت

عبرانی میں کل بنیادی ٢٢ حروف تہجی ہیں بقیہ حروف انہی ٢٢ ہی کی شکلیں ہیں یہی وجہ ہے کہ چھٹا دن قرشت ہے کیونکہ قرشت تک عبرانی کے سارے ٢٢ حروف استمال ہوجاتےہیں

نقشہ ١ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ الفاظ عبرانی کے حروف تہجی ہیں

العسکری اپنی کتاب الاوائل میں کہتے ہیں

وقالوا: أول من وضعه أبجد وهوز وحطي وكلمن وسعفص وقرشت. وضعوا الكتاب على أسمائهم وكانوا ملوكاً.

اور کہتے ہیں: جو سب سے پہلے بنا وہ أبجد وهوز وحطي وكلمن وسعفص وقرشت تھے. اور ان کے ناموں پر کتاب بنی اور یہ بادشاہ تھے


ابن خلدون مقدمہ میں باب ومنهم طوائف يضعون قوانين لاستخراج الغيب میں علم غیب کی رسائی پر کی جانے والی مسلمانوں کی کوششوں پر لکھتے ہیں

وصارت تسع كلمات نهاية عدد الأحاد وهي ” إيقش، بكر، جلس، دمت، هنث، وصخ، زغد، حفظ، طضغ

اور ان سے نو کلمات نکلتے ہیں جو ایک عدد دیتے ہیں اور یہ الفاظ ہیں

إيقش، بكر، جلس، دمت، هنث، وصخ، زغد، حفظ، طضغ

نقشہ ١ میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ نوالفاظ ایک ہی سطر میں موجود حروف سے بنے ہیں. کچھ تبدیلی بھی ہے لیکن مصنف کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن خلدون نے ان الفاظ کو سن کر لکھا ہے

جواد علی اپنی کتاب المفصل في تاريخ العرب قبل الإسلام میں لکھتے ہیں

ولمسألة ترتيب الحروف اهمية كبيرة لا تقل عن اهمية أسماء الحروف. ويظهر إن ترتيب ” أبجد هوز حطي..، الخ”، وهو ترتيب سار عليه العرب أيضاً، هو ترتيب قديم، وقد عرف عند السريان وعند النبط والعبرانيين،وعند “بني إرم” ويظن انهم أخذوه من الفينيقيين. وقد سار عليه الكنعانيون أيضاً،

اور حروف کی ترتیب کا مسئلہ نہایت اہم ہے … اور یہ اس ترتیب میں ظاہر ہوتے ہیں ” أبجد هوز حطي..، الخ اور اسی ترتیب کو عربوں نے لیا ہے، اور یہ ایک قدیم ترتیب ہے، جس سے سریان والے (یعنی شام)، نبط والے، عبرانی بولنے والے، بنی ارم واقف تھے اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسکو الفينيقيين (قدیم شام) سے لیا ہے اور ان سے کنعان والوں نے بھی



معلوم ہوا کہ مسلمان ان الفاظ کے ماخذ سے لا علم رہے ہیں، کچھ نے کہا یہ تخلیق کے چھ ایام کے نام ہیں، کچھ نے کہا یہ بادشاہوں کے نام ہیں لیکن سب اس پر متفق ہیں کہ یہ الفاظ قدیم ہیں


اسم اعظم


یہودی تصوف کی ایک اہم قدیم کتاب شر قومہ ہے. اس کتاب کا بیشتر حصہ مکاشفات پر مبنی ہے جس میں سب سے اہم فرشتہ متطروں ہے جو ربی یشماعیل پر آنے والے واقعات کو القاء کرتا ہے اور ربی یشماعیل کے شاگرد اور ربی عقبه اس کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتے ہیں. کتاب شر قومہ تجسیم الہی کی طرف مائل ہے اور اس میں خدا کے جسم کے اعضا اور انکی پیمائش دی گئی ہے. کتاب میں لکھا ہے کہ

Everyone who knows the measure of the Creator is sure to be a son of the World to Come, and will be saved from the punishment of Gehinnom, and from all kind of punishments and evil decrees about to befall the world, and will be saved from all kind of witchcraft, for He saves us, protects us, redeems us, and rescues me from all evil things, from all harsh decrees, and from all kinds of punishments for the sake of His Great Name.” Shiur Qomah 1:2


ہر وہ شخص جو الخالق کی پیمائش جانتا ہوگا وہ بلا شبہ آنے والی دنیا کا بیٹا ھو گا، اور جہنم کی آگ سے نجات پائے گا، اور ہر طرح کی سزا سے اور ان مصائب سے جو دنیا پر آنے والے ہیں، اور پر طرح کے جادو سے، کیونکہ وہ (الخالق) اس سے بچائے گا، محفوظ رکھے گا، نکالے گا، اور مجھ کو شر سے بچائے گا، سخت احکامات اور ساری سزاؤں سے اپنے اسم اعظم کی وجہ سے شر قومہ ١ میں

اسلام میں دوسری صدی میں عراق میں ایک گمراہ شخص بنام مغیرہ بن سعید (المتوفی ١١٩ ھ) گزرا ہے. یہ ایک سیاسی و مذہبی شخص تھا. ابن حزم اس کے بارے میں الملل میں لکھتے ہیں

یہ کوفی تھا. اس کو خالد بن عبدللہ کے حکم پر زندہ جلایا گیا. یہ کہا کرتا تھا کہ اسکا رب ایک جوان آدمی جیسا ہے اور اس کے اعضا کی تعداد حروف ابجد کے برابر ہے. مشھور کذّاب جابر بن یزید الجعفی ، مغیرہ کے بعد اس کا پیامبر تھا. مغیرہ نے اپنے حواریوں کو حکم دے رکھا تھا کہ شیعہ کے امام محمّد بن عبدللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب، یعنی حسن رضی الله تعالی عنہ کے پڑ پوتے ہیں. مغیرہ نے یہ دعوی بھی کیا کہ جبریل اور میکائیل نے رکن (کعبہ) اور مقام (ابراہیم) کے درمیان محمّد بن عبدللہ کی بیعت کی ہے . اس نے تاویل[14] قرآن کو بھی ایجاد کیا. اس نے یہ کہا کہ قرآن میں عدل سے مراد علی، احسان سے مراد فاطمه، ذوی القربی سے مراد حسن اور حسین ہیں اور الفحشاء و المنکر سے مراد ابوبکر اور عمر ہیں



ابو الحسن الشعری مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں لکھتے ہیں[15]

والفرقة الرابعة منهم المغيرية أصحاب المغيرة بن سعيد يزعمون أنه كان يقول أنه نبي وأنه يعلم اسم الله الأكبر، وأن معبودهم رجل من نور على رأسه تاج وله من الأعضاء والخلق مثل ما للرجل وله جرف وقلب تنبع منه الحكمة وأن حروف أبي جاد على عدد أعضائه قالوا: والألف موضع قدمه لاعوجاجها وذكر الهاء فقال: لو رأيتم موضعها منه لرأيتم أمراً عظيماً يعرض لهم بالعورة وبأنه قد رآه لعنه الله، وزعم أنه يحيي الموتى بالاسم الأعظم ….. فكان أول من خلق منها محمداً صلى الله عليه وسلم


(شیعوں کا) چوتھا گروہ المغیریہ ہے یعنی مغیرہ بن سعید کے ماننے والے. ان کا یہ خیال تھا کہ مغیرہ نبی تھا اور اسماعظم جانتا تھا. انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ ان کا معبود نوری ہے اور انسان جیسا ہے جس کے سر پر تاج ہے . اس کے اعضا انسان جیسے ہیں . اس کا پیٹ اور دل ہے جس سے حکمت نکلتی ہے اور اس کے انتے ہی اعضا ہیں جتنے حروف ابجد ہیں. تھوڑا ترچھا الف معبود کا قدم ہے اور ھ کے لئے انہوں نے دعوی کیا کہ اگر تم نے اس کو دیکھا تو گویا ایک امر عظیم دیکھا! اس سے ان کا مطلب پوشیدہ اعضا ہیں. یہ ملعون کہتا تھا کہ اس نے ان کو دیکھا ہے. اس نےاسم اعظم کو جاننے کا بھی دعوی کیا جس سے یہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے .. اس نے یہ دعوی بھی کیا کہ محمّد صلی الله علیہ وسلم پہلی تخلیق ہیں


سلیمان کے دربار کے اس شخص کے بارے میں جس کو کتاب کا علم دیا دیا تھا ، الکافی باب ١٦ کی روایت ہے کہ[16]

محمد بن يحيى وغيره ، عن أحمد بن محمد ، عن علي بن الحكم ، عن محمد بن الفضيل قال : أخبرني شريس الوابشي ، عن جابر ، عن أبي جعفر عليه السلام قال : إن اسم الله الأعظم على ثلاثة وسبعين حرفا وإنما كان عند آصف منها حرف واحد فتكلم به فخسف بالأرض ما بينه وبين سرير بلقيس حتى تناول السرير بيده ثم عادت الأرض كما كانت أسرع من طرفة عين ونحن عندنا من الاسم الأعظم اثنان وسبعون حرفا ، وحرف واحد عند الله تعالى استأثر به في علم الغيب عنده ، ولا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم .


الله کے اسم اعظم کے تہتر ٧٣ حروف ہیں. ان میں سے صرف ایک حرف کو ادا کیا گیا تھا کہ اسکے اور ملکہ شیبا کے درمیان زمین کو دھنسا دیا گیا کہ اس نے تخت تک ہاتھ بڑھا لیا اور زمین واپس اپنی جگہ لوٹ آئی. یہ سب پلک جھپکتے میں ہوا. ہمارے پاس اسم اعظم کے بہتر حروف ہیں . الله نے علم غیب میں ایک ہم سے پوشیدہ رکھا ہے…


طبقات الصوفیہ ص ٢٧ میں ابراہیم بن ادھم کی حکایت ہے کہ

سمعت أبا العباس، محمدَ بن الحسن بنِ الخشاب، قال: حدثنا أبو الحسن عليُّ بن محمد بن أحمد المصري، قال: حدثني أبو سعيد أحمدُ بن عيسى الخَرَّاز، قال: حدثنا إبراهيم بن بَشَّار، قال: ” صحبت إبرهيم بن أدهم بالشام، أنا و أبو يوسف الغَسُولى، و أبو عبد الله السنِّجارى. فقلت: يا أبا إسحاق! خبِّرني عن بَدْءِ أمرك، كيف كان ” – قال: ” كان أبي من ملوك خُراسان. و كنت شاباً فركبت إلى الصَّيد. فخرجت يوماً على دابَّة لي، و معي كلب؛ فأَثَرْت أرنباً، أو ثعلباً؛ فبينما أنا أَطْلُبه، إذ هتف بي هاتف لا أراه؛ فقال: يا إبراهيم: إلهذا خلقتَ؟! أم بهذا أُمِرت؟!. ففَزِعتُ، و وقفتُ، ثم عدتُ، فركضتُ الثانية. ففعل بي مثلُ ذلك، ثلاثَ مرات. ثم هتف بي هاتف، من قَرَبُوس السَّرْج؛ و الله ما لهذا خُلِقتَ! و لا بهذا أُمِرتَ!. فنزلت، فصادفت راعياً لأبي، يرعى الغنم؛ فأخذت جُبَّتَه الصوفَ، فلبِستها، و دفعت إليه الفرس، و ما كان معي؛ و توجهت إلى مكة. فبينما أنا في البادية، إذا أنا برجل يسير، ليس معه إناءٌ، و لا زادٌ. فلما أَمْسَى، و صلّى المغربَ، حرَّكَ شفتيه، بكلامٍ لم أفْهَمه؛ فإذا أنا بإناءٍ، فيه طعامٌ، و إناءٍ فيه شرابٌ؛ فأكلتُ، و شربتُ. و كنتُ معه على هذا أيَّاماً؛ و علمني ” اسمَ اللهِ الأعظمَ ” . ثم غاب عني، و بقيتُ وحدي. فبينما أنا مُسْتَوْحش من الوحدة، دعوتُ اللهَ به؛ فإذا أنا بشخص آخِذٍ بحُجْزَتي؛ و قال: سَلْ تُعْطَهْ. فَراعَني قولُه. فقال: لا رَوْعَ عليك! و لا بَأْسَ عليك!. أنا أخوك الخَضْر. إن أخي داود، عَلّمك ” اسمَ اللهِ الأعظم ” ، فلا تَدْعُ به على أحد بينك و بينه شَحْنَاء، فتُهْلِكه هَلاكَ الدنيا و الآخرة؛ و لكن ادْعُ الله أن يُشَجِّع به جُبْنَك، و يُقوّيَ به ضَعفَك، و يُؤْنِسَ به وَحْشتَك، و يجدِّدَ به، في كل ساعة، رَغبتَك. ثم انصرف وتركني. “

إبراهيم بن بَشَّار بیان کرتے ہیں کہ میں إبرهيم بن أدهم کے ساتھ شام میں تھا میرے ساتھ أبو يوسف الغَسُولى، اور أبو عبد الله السنِّجارى بھی تھے . پس میں نے ان سے اس طریقہ پر ان کی ابتداء کے بارے میں پوچھا یہ سب کیسے ہوا؟ انہوں نے بتایا : میرے والد خراسان کے بادشاہوں میں سے تھے اور میں جوان تھا شکار کے لئے نکلا. پس ایک دن اپنی سواری پر نکلا اور میرے ساتھ (شکاری) کتے تھے میں ایک خرگوش یا لومڑی کے پیچھے گیا ابھی پکڑنے والا تھا کہ ہاتف غیبی نے پکارا اور کہا اے ابراہیم کیا اس کام کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے؟ کیا اسکا حکم کیا گیا ہے؟ میں خوفزدہ ہوااوررکا اور انتظار کیا پھر دوسری بار چلا پھر ایسا ہی ہوا تین دفعہ. اب ہاتف کی آواز زین سے آئی الله کی قسم ! کیا اس کام کے لئے تمہیں خلق کیا گیا ہے؟ کیا اسکا حکم کیا گیا ہے؟ میں سواری سے اترا، اور اپنے باپ کے لئے کام کرنے والے چرواہے کے پاس آیا اسکا اون کا جبّہ پہنا ، گھوڑوں کو جو کچھ میرے پاس تھا وہ سب واپس کیا اور مکّہ کا رخ کیا. جب میں بیابان میں رستے میں ایک بھٹکتا انسان تھا ، نہ کوئی برتن تھا اور نہ ہی کچھ اور پس شام ہوئی اور میں نے مغرب کی نمازپڑھی میرا ہونٹ ہلا اور ایسا کلام ادا ہونے لگا جو میں نہیں سمجھ سکا، پس یکایک میرے آگے برتن تھا جس میں کھانا تھا اور برتن تھا جس میں مشروب تھا پس میں نے کھایا اور پیا اور ان دنوں وہ برتن میرے پاس رہے اور مجھے اسم الله الأعظمَ سکھایا پر مجھ سے کھو گیا اور باقی رہ گیا. پس میں اپنی وحشت میں ایک تھا میں نے اس سے الله کو پکارا پس ایک شخص نے مجھے پکڑا اور کہا مانگو عطا کیا جائے گا، میں ڈرا اس کلام سے، کہا: مت ڈرو، کوئی برائی نہیں! میں تمہارا بھائی خضر ہوں. بے شک میرے بھائی داود نے تم کو اسم الله الأعظمَ سکھایا تھا پس اس نام کو اس لئے استمال نہ کرنا کہ جس سے تمہارا جھگڑا ھو تو تمہاری دنیاو آخرت ہلاک ہو جاۓ گی لیکن اس سے الله کو پکارنا تمہیں شجاعت ملے گی، کمزوری میں طاقت ملے گی ، وحشت میں مونست ملے گی اور ہر پل تمہاری لگن میں اضافہ ھو گا. یہ کہ کر وہ چلا گیا


ابو یزید البسطامی (المتوفی ٢٦١ ھ) کہتے ہیں[17]

وقيل له: علمنا الاسم الاعظم.قال: ليس له حد، إنما هو فراغ قلبك لوحدانيته، فإذا كنت كذلك، فارفع له أي اسم شئت من أسمائه إليه


اس سے کہا گیا: ہمیں اسم الله الأعظمَ سکھائیں. بولے: اس کی کوئی حد نہیں یہ تو تیرے قلب کی یکسوئی پر مبنی ہے، پس جب یہ ھو تو کسی بھی نام سے پکارو جوالله کے نام ہیں




 

H0mer

Newbie
Dec 25, 2014
46
25
8
بھائی اپ جن صوفیوں کی برائی کر رہے ہو ان کے ہی توسط سے تو اسلام آج دنیا میں پھیلا ، ہندوستان میں اسلام کو سب سے زیادہ مقبولیت صوفیوں کی وجہ سے ہوئی
 

lovelyalltime

I LOVE ALLAH
TM Star
Feb 4, 2012
1,656
1,533
913
بھائی اپ جن صوفیوں کی برائی کر رہے ہو ان کے ہی توسط سے تو اسلام آج دنیا میں پھیلا ، ہندوستان میں اسلام کو سب سے زیادہ مقبولیت صوفیوں کی وجہ سے ہوئی


مجھے پورا تھریڈ پیش کرنے دیں پھر آپ کو آپ کے سوال کا جواب مل جا ے گا - انشاءاللہ
 
Top