یہ کب کہا ہے کہ مرنے کی بات یار نہ کر
مگر یہ تذکرہ ہجر بار بار نہ کر
وہ اک کرم سے سبھی کچھ تجھے بھلا دے گا
تو اس لئے ستم اس کے ابھی شمار نہ کر
نظر کو روک کسی آرزو کے ساحل پر
اب اس کے حسن کے دریا کو ایسے پار نہ کر
کوئی امید نہ رکھ اب کسی کے آنے کی
جو وقت بیت گیا اس کا انتظار نہ کر
سکوں بہت ہے یہاں دوریوں کے صحرا میں
قریب آ کے ہمیں پھر سے بے قرار نہ کر
سمجھ لے اس کو بھی حکمت کوئی خدا کی حسن
وہ جا چکا ہے تو یوں خود کو سوگوار نہ کر
مگر یہ تذکرہ ہجر بار بار نہ کر
وہ اک کرم سے سبھی کچھ تجھے بھلا دے گا
تو اس لئے ستم اس کے ابھی شمار نہ کر
نظر کو روک کسی آرزو کے ساحل پر
اب اس کے حسن کے دریا کو ایسے پار نہ کر
کوئی امید نہ رکھ اب کسی کے آنے کی
جو وقت بیت گیا اس کا انتظار نہ کر
سکوں بہت ہے یہاں دوریوں کے صحرا میں
قریب آ کے ہمیں پھر سے بے قرار نہ کر
سمجھ لے اس کو بھی حکمت کوئی خدا کی حسن
وہ جا چکا ہے تو یوں خود کو سوگوار نہ کر