’ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا جہاں ہر حرکت ریکارڈ کی جارہی ہو‘

  • Work-from-home

goodfrndz

"A faithful friend is the medicine of life."
VIP
Aug 16, 2008
12,849
4,072
1,113
محبت والا
برطانوی اخبار گارڈین نے اس شخص کا نام ظاہر کردیا ہے جس نے امریکی حکومت کی جانب سے فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے نگرانی کے پروگرام کیمعلومات منظر عام پر لایا۔

اخبار نے کہا ہے کہ ایڈورڈ کا نام انہی کی درخواست پر ظاہر کیا جا رہا ہے۔گارڈین اخبار کے مطابق اس پروگرام کی معلومات ظاہر کرنے والا شخص انتیس سالہ ایڈورڈ سنوڈن ہے جو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سابق ٹیکنیکل اسسٹنٹ ہیں۔اس وقت وہ ڈیفنس کنٹریکٹر بوز ایلن ہیملٹن کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

ایڈورڈ نے برطانوی اخبار کو بتایا کہ وہ بیس مئی کو ہانگ کانگ گئے تھے جہاں انہوں نے اپنے آپ کو ایک ہوٹل میں بند کرلیا۔
’میں ایسے معاشرے میں نہیں رہنا چاہتا جہاں اس قسم کا کام کیا جائے ۔۔۔ میں ایسی دنیا میں نہیں رہنا چاہتا جہاں ہر وہ چیز جو میں کروں یا کہوں اس کو ریکارڈ کیا جائے۔‘
واضح رہے کہ برطانوی اخبار گارڈین نے خبر شائع کی تھی کہ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی بڑے پیمانے پر فون اور انٹرنیٹ کی نگرانی کر رہی ہے۔
اخبار کے مطابق امریکی خفیہ ایجنسی کے اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر نظر رکھی جا سکے۔
بعدازاں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے تسلیم کیا تھا کہ حکومت انٹرنیٹ کمپنیوں سے صارفین کی بات چیت کا ریکارڈ حاصل کرتی ہے تاہم انہوں نے کہا تھا کہ معلومات حاصل کرنے کی پالیسی کا ہدف صرف’غیر امریکی افراد‘ ہیں۔
گارڈین اخبار کے مطابق جب ایڈورڈ سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں ان کا جواب تھا ’اچھا نہیں۔‘
ایڈورڈ کا کہنا تھا کہ وہ ہانگ کانگ اس لیے گئے کہ وہاں پر آزادی اظہار کا حق ہے۔
واضح رہے کہ صدر براک اوباما نے اس پروگرام کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کی انتظامیہ نے سکیورٹی اور پرائیویسی کے درمیان ’صحیح توازن برقرار رکھا ہے۔‘
صدر اوباما نے کہا تھا کہ این ایس اے کے پروگرام کی منظوری کانگریس نے دی ہے اور کانگریس کی انٹیلیجنس کمیٹیاں اور خفیہ جاسوسی کی عدالتیں اس پروگرام کی مسلسل نگرانی کرتی ہیں۔
صدر اوباما نے کہا کہ جب انھوں نے صدر کی ذمہ داری اٹھائی تھی اس وقت دونوں پروگراموں کے بارے میں کافی شکوک پائے جاتے تھے لیکن ان کی جانچ پڑتال اور اس میں مزید حفاظتی انتظامات کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ ’یہ قابل قبول ہے‘۔
انھوں نے مزید کہا: ’اس کے ذریعہ آپ کو صد فی صد سیکیورٹی تو نہیں مل سکتی لیکن سو فی صد پرائیویسی آپ کو حاصل ہے۔‘
خیال رہے کہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے خبر دی تھی کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں سراغ رسانی کی غرض سے انٹرنیٹ کی نو بڑی کمپنیوں کے سرورز سے صارفین کے بارے میں براہ راست معلومات حاصل کر رہی ہیں۔ ان کمپنیوں میں فیس بک، یو ٹیوب، سکائپ، ایپل، پال ٹاک، گوگل، مائکروسافٹ اور یاہو بھی شامل ہیں۔
ان خبروں کے بعد ورلڈ وائیڈ ویب کے خالق سر ٹم برنرز لی نے پرزم پروگرام پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی حکومت کی جانب سے یہ اقدام بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ کے صارفین سے کہا کہ وہ انفرادی طور پر بھی اس معاملے پر آواز اٹھائیں اور احتجاج کریں۔
دوسری جانب فیس بک کے خالق مارک زکربرگ اور گوگل کے مالک لیری پیج نے امریکہ خفیہ ایجنسی کو صارفین کی معلومات کی فراہمی کی تردید کی تھی۔
اس سے قبل ایپل اور یاہو بھی کسی بھی حکومتی ایجنسی کو اپنے سرورز تک براہ راست رسائی دینے کے الزام سے انکار کر چکی ہیں۔
 
Top