آنسوؤں سے عقیدت یونہی تو نہیں مجھ کو
یہی ساتھ نبھاتے ہیں جب کوئی نہیں ہوتا
زلفیں اُدھر کھلیں‘ اِدھر آنسو اُمڈ پڑے
ہیں سب کے اپنے اپنے روابط گھٹا کے ساتھ
هر وقت آنسو بہاتے رهنا
شغل هے اداس لوگوں کا
آنسو نہ روک، دامنِ زخمِ جگر نہ کھول
جیسا بھی حال ہو، نگہِ یار پر نہ کھول
بھر آئیں نا آنکھیں تو اک بات کہوں
اب تم سے بچھڑنے کا امکاں بہت ہے
آیا ہی تھا خیال کہ آنکھیں چھلک پڑیں
آنسو کسی کی یاد کے کتنے قریب تھے
بچھڑ ہی جاتے ہیں دنیا میں چاہنے والےیہ حقیقت ہے جہاں ٹوٹ کے چاہا جائے
وہاں بچھڑنے کے بھی امکان ہوئے کرتے ہیں
تُو یاد کر یا بھول جا
یاد سے یاد کا تعلق ہے
دَرد اُٹھتا نہیں کبھی تنہا
تُو یاد کر یا بھول جا
تُو یاد ہے یہ یاد رکھ
یادِ ماضی عذاب ہے یا ربیاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا