آنکھوں میں نمی تھوڑی سی
جب ہوئی اُس کی توجہ میں کمی تھوڑی سی
خود بخود آ گئی آنکھوں میں نمی تھوڑی سی
بن گیا پھول، بنانے تھے خد و خال اُس کے
رہ گئی میرے تخیل میں کمی تھوڑی سی
وہ جو آ جاتا تو کیا کیا نہیں ہوتا پھر بھی
ذکر جب اس کا چھڑا بزم جمی تھوڑی سی
اُس کو بھی اپنی انا پر ہے بہت ناز تو پھر
ہم بھی دکھلائیں گے ثابت قدمی تھوڑی سی
رسمِ محفل ہی سہی حال تو پوچھا اُس نے
شدتِ گرمیِ جذبات تھمی تھوڑی سی
یوں ہی اک حرف ِ شکایت تھا لبوں پر اُس کے
جس طرح پھول کی پتی پہ نمی تھوڑی سی
اُس نے رکھا ہی نہیں پاؤں زمیں کے اوپر
مل گئی جس کو تری ہم قدمی تھوڑی سی
اور دو آتشہ کر دیتی ہے آہنگ ِ غزل
ہندوی لَے میں نوائے عجمی تھوڑی سی