اے دوست بھلا دے مجھ کو
اب تو اشکوں کی روانی میں نہ رکھی جائے
اس کی تصویر ہے پانی میں نہ رکھی جائے
ایک ہی دل میں ٹھہر جائیں ہمیشہ کے لیے
زندگی" نقل "مکانی" میں نہ رکھی جائے"
زندہ رکھنا ہو محبت میں جو "کردار" مِرا
ساعتِ وصل کہانی میں نہ رکھی جائے
یوں تو ملتے ہیں سبھی لوگ بچھڑنے کے لئے
ناگہانی یہ "جوانی" میں نہ رکھی جائے
بھول جانا ہے تو اے دوست بھلا دے مجھ کو
یاد" اب "یاد دہانی" میں نہ رکھی جائے"
دل بھی تھوڑا سا سبک دوشِ تمنا کر دے
کچھ طبیعت بھی گِرانی میں نہ رکھی جائے