Waqt sy pehly kai hadsu sy larra hunنہیں
نہ مرے زخم کھلے ہیں نہ ترا رنگ حنا
موسم آۓ ہی نہیں اب کے گلابوں والے
Me apni umer sy kai saal barra hun
Waqt sy pehly kai hadsu sy larra hunنہیں
نہ مرے زخم کھلے ہیں نہ ترا رنگ حنا
موسم آۓ ہی نہیں اب کے گلابوں والے
Mery hathu ki lakerun me ye aib chupa hyبعد
بس ایک ترا نام چھپانے کی غرض سے
کس کس کو پکارا دلِ بیمار نے میرے
Talatum khaiz moujun me khra hunrha
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسرکرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے،مرے خوابوں کی طرح
کسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہےچلے سے چ
چلی ہے شہر میں کیسی ہوا اداسی کی
سبھی نے اوڑھ رکھی ہے ردا اداسی کی
حقارت سے نہ دیکھو اہل ساحل اہل طوفاں کوKbhi lehren kinaarun per bala ka raqs krti hain
Kbhi saahil sy takra ker samunder doob jaty hain
تا قیامت ہرے بھرے رہیں گےکا سے ک
کس بوجھ سے جسم ٹوٹتا ہے
اتنا تو کڑا سفر نہیں تھا
وہ چار قدم کا فاصلہ کیا
پھر راہ سے بے خبر نہیں تھا
کوئی پاگل ہی محبت سے نوازے گا مجھےکرتے سے ک
کچھ ہمیں اس سے جان کر نہ کھلے
ہم پہ سب بھید تھے وگرنہ کھلے
جی میں کیا کیا تھی حسرتِ پرواز
جب رہائی مِلی تو پَر نہ کُھلے
گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوںGo zara c baat per barsu k yarany gaye
Lekin itna to hua kuch log pehchany gaye
دوستی بھی کبھی رہی ہو گیتھا سے ت
تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست
تو مری پہلی محبت تھی مری آخری دوست
لوگ ہر بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں
یہ تو دنیا ہے مری جاں کئی دشمن کئی دوست
حل یہی ہے کہ بھول جاٶں اُسےدوستی بھی کبھی رہی ہو گی
دشمنی بےسبَب نہیں ہوتی
ہم سماعت کو ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیںجو نہ عشق ہم کو ان سے دیوانہ وار ہوتا
پھر اپنا بھی اس جہاں میں کوئی غمگسار ہوتا
جاؤ کہیں بھی صنم، تمہیں اتنی قسم, ہمیں یاد رکھنالیے سے ل
لوگ دیوانے ہیں بناوٹ کے
ہم سادگی لے کر کہاں جائیں
رند حاضر ہیں شیشہ و ساغرجاؤ کہیں بھی صنم، تمہیں اتنی قسم, ہمیں یاد رکھنا
تیری دنیا سے دور، چلے ہو کے مجبور، ہمیں یاد رکھنا
her aik mousam me roshni si bikhairty hainکسے خبر ہے کہ عمر بس اس پہ غور کرنے میں کٹ رہی ہے
کہ یہ اداسی ہمارے جسموں سے کس خوشی میں لپٹ رہی ہے
Haan me wohi shakhs hunحقارت سے نہ دیکھو اہل ساحل اہل طوفاں کو
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کنارے ڈوب جاتے ہیں
کسی درخت کی حدت میں دن گزارنا ہےکی سے ک
کِتنے خُوش ہو فراز ؔاسیری پر
اور یہ بندِ غم اگر نہ کُھلے؟
hum samunder ki trah chup hain k hum janty hainتا قیامت ہرے بھرے رہیں گے
ان درختوں پہ دم کیا گیا ہے
گرچہ اب قرب کا امکاں ہے بہت کم پھر بھیگلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا
guzer to jaye gi tery bghair bhi lekinگلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا