نہیں جانوں، بھلا میں کیوں دمِ دیدار رقصاں ہوںیار کو ہم نے جابجا دیکھا
کہیں ظاہر کہیں چھپا دیکھا
مگر ناز اِس پہ ہے مجھ کو، کہ پیشِ یار رقصاں ہوں
جو چھیڑے نغمہ وہ ہر بار، میں ہر بار رقصاں ہوں
کسی بھی طرز پہ چاہے میرا وہ یار، رقصاں ہوں
تُو وہ قاتل، بہائے خوں تماشے کے لئے میرا
میں وہ زخمی، کہ زیرِ خنجرِ خونخوار رقصاں ہوں