السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
ناصر بھائی جیسا کہ اس مضمون میں ڈاکٹر ذاکر صاحب نے فرمایا ہے کہ چاروں امام نے کہا ہے کہ اُن کا کوئی ایسا فتوی جو قرآن و حدیث کے مخالف ہو ایسے فتوی کو رد کردینا چاہیے
اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک فتوی کی مثال پیش کی.... جس میں امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جب وضو کی حالت میں عورت مرد کو چھوتی ہے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے
جبکہ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ یہ فتوی ایک صحیح حدیث سے ٹکراتا ہے ..لہذا اس فتوی کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کیا جائے ....جیسا کہ امام صاحب کا قول ہے کہ میرا کوئی قول قرآن و حدیث کے مخالف دیکھو تو میرا فتوی چھوڑ دو
تو گذارش عرض یہ ہے کہ جہاں تک تو چاروں ائمہ کرام کے اس قول کا تعلق ہے کہ قرآن و حدیث کے مخالف امام کا قول چھوڑ* کر قرآن و سنت کی اتباع کی جائے " تو یہ بات اپنی جگہ درست ہے ...نزاع اس چیز پر ہرگز ہرگز نہیں
بلکہ اشکال تو اس چیز پر ہے کہ یہ متعین کون کرے گا کہ ائمہ کرام کا کون سا قول قرآن و سنت کے مخالف ہے ؟؟؟
بالفرض ہمارے جیسے ہر عام مسلمان اگر یہی اپنا اصول بنا لے کہ اُس نے صحیح حدیث کے مقابلے میں کسی امام یا مفتی کا قول نہیں سننا ہے
تو ایک مثال پیش خدمت ہے ...امید ہے کہ آپ اس پر غور فرماکر جواب عنایت فرمائیں گے :
جامع ترمذی کی حدیث میں ہے کہ :
عن ابی ھریرہ ان رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم قال لاوضوء الا من صوت اوریح"
یعنی حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وضو اسی وقت واجب ہے جب کہ یا آواز ہو یا بدبو ہو
اسی کے ساتھ جامع ترمذی کی حدیث ہے :
اذا کان احد کم فی المسجد فوجدریحابین الیتیہ فلا یخرج حتی یسمع صوتا اویجد ریحا"
(جامع ترمذی ج 1 ص 31 باب ماجاء فی الوضوء من الریح)
یعنی اگر تم میں سے کوئی شخص مسجد میں ہو اور اسے اپنے سرینوں کے درمیان ہوا محسوس ہو تو وہ اس وقت تک مسجد سے (بہ ارادہ وضو)نہ نکلے جب تک اُس نے (خروج ریحکی) آواز نہ سنی ہو یا اس کی بدبو محسوص نہ کی ہو
تو ناصر بھائی ایک عام مسلمان کواپنے امام کا فتوی معلوم ہے کہ محض ریح خارج ہوجانے پر وضو ٹوٹ جاتا ہے .... لیکن جب ایک عام مسلمان کو جب یہ حدیث معلوم ہوئی اور وہ یہ اپنا اصول بنا لے کہ جب تک ریح کی آواز نہیں سنے گا یا بدبو نہیں محسوس کرے گا تب اس کا وضو ساقط نہیں ہوگا.... اور وہ اپنے امام کے یا مفتی کے قول کو چھوڑ دے ....تو وہ عام مسلمان طرف سے تو بڑا اچھا کام کررہا ہے کہ اُس نے صحیح حدیث کو دیکھتے ہوئے اپنے امام کا قول رد کردیا۔۔۔لیکن کیا دوسری طرف شرعی نکتہ نگاہ سے اس شخص کا یہ عمل واضح طور پر گمراہی نہیں ????
????تو آپ کے خیال میں عام مسلمانوں کو یہ تعلیم دینا درست ہوگا کہ جب صحیح حدیث مل جائے تو اپنے امام کا قول چھوڑ دو
(باقی آپ مسئلہ بخوبی سمجھ رہے ہوں گے اس لئے مزید وضاحت کی ضرورت نہیں)
یہ ایک مثال ہے اسی طرح بہت سے مسائل پر بہت سی مثالیں دی جاسکتیں ہیں