Mirza Ghalib Ghazal Collectoin

  • Work-from-home

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا

کم نہیں نازشِ ہمنامیِ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا

سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا [1]

ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا

  1. کام کا ہے مرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا (نسخۂ حسرت، نسخۂ مہر) (جویریہ مسعود)
مزید: نسخۂ مہر اور حسرت موہانی میں یہ شعر یوں ملتا ہے:

نام کا ہے میرے وہ دکھ جو کسی کو نہ ملا
کام کا ہے مِرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا
 

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

گر نہ "اندوہِ شبِ فرقت" بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہو جائے گا

زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پرتوِ مہتاب سیلِ خانماں ہو جائے گا

لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بد گماں ہو جائے گا

دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا

سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا

گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط
شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہو جائے گا

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر ایک "چشمِ خوں فشاں" ہو جائے گا

وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا

[1] گر وہ مستِ ناز دیوے گا صلائے عرضِ حال
خارِ گُل، بہرِ دہانِ گُل زباں ہو جائے گا


فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا
 

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب، "کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا"

ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں [1] ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما
کام گر رک گیا، روا نہ ہوا

رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، "دلستاں" روانہ ہوا

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا!
 
  • Like
Reactions: whiteros

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب!
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

ملی نہ وسعتِ جولانِ یک جنوں ہم کو [1]
عدم کو لے گئے دل میں غبارِ صحرا کا


مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے
میں مدّعا ہوں تپش نامۂ تمنّا کا


غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے [2] بے جا کا

ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا

دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا

فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ
جفا میں اُس [3] کی ہے انداز کارفرما کا
 

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313
قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
خطِّ جامِ مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا

اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا

گرمیِ دولت ہوئی آتش زنِ نامِ نکو
خانۂ ماتم میں یاقوتِ نگیں اخگر [1] ہوا


نشّے میں گُم کردہ رہ آیا وہ مستِ فتنہ خو
آج رنگِ رفتہ دورِ گردشِ ساغر ہوا


درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست
ریزہ ریزہ استخواں کا پوست میں نشتر ہوا


اے بہ ضبطِ حال خو نا کردگاں [2] جوشِ جنوں
نشّۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا


زُہد گر دیدن ہے گِردِ خانہ ہائے منعماں
دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا


اس چمن میں ریشہ واری جس نے سر کھینچا اسدؔ
تر زبانِ شکرِ لطفِ ساقیِ کوثر ہوا
 

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا

اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیِ ناز
جوہرِ آئینہ کو طوطیِ بسمل باندھا

یاس و امید نے اک عرَبدہ میداں مانگا
عجزِ ہمت نے طِلِسمِ دلِ سائل باندھا

نہ بندھے تِشنگیِ ذوق [1] کے مضموں، غالبؔ
گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا
 

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟

ہے ایک تیر جس میں دونوں چھِدے پڑے ہیں
وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا

درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں
جب رشتہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا
 

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

تنگیِ دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا

بعد یک عمرِ وَرع بار تو دیتا بارے
کاش رِضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا
 

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہُوا جب غم سے یوں بے حِس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالبؔ مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
 

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا

بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا

بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے
تِریاکیِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا

سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا

بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا

باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل
ابرِ بہار خمکدہ کِس کے دماغ کا!

جوشِ بہار کلفتِ نظّارہ ہے اسدؔ
ہے ابر پنبہ روزنِ دیوارِ باغ کا
 

AnadiL

••●∂ιѕαѕтєя●••
VIP
Nov 24, 2012
72,933
23,237
1,313

وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
رازِ مکتوب بہ بے ربطیِ عنواں سمجھا

یک الِف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا

ہم نے وحشت کدۂ بزمِ جہاں میں جوں شمع
شعلۂ عشق کو اپنا سر و ساماں سمجھا


شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا

بد گمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرام
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا

عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہو گا
نبضِ خس سے تپشِ شعلۂ سوزاں سمجھا

سفرِ عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی
ہر قدم سائے کو میں اپنے شبستان سمجھا

تھا گریزاں مژۂ یار سے دل تا دمِ مرگ
دفعِ پیکانِ قضا اِس قدر آساں سمجھا

دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار، اسدؔ
غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
 

whiteros

'"The queen of kindness''
Super Star
Dec 20, 2011
10,936
3,866
1,313
درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب، "کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا"

ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں [1] ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما
کام گر رک گیا، روا نہ ہوا

رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، "دلستاں" روانہ ہوا

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا!
bohat khoob
 
Top