رگوں کا زہر جو بنا ہے
رگوں کا زہر .......... جو بنا ہے
رگ جاں میں ...... شامل تو رہا ہے
امید وصل ........... بہت کٹھن ہے
کیسا وقت ........ ہجر اَن کھڑا ہے
چارہ گر....... اب پا بہ زنجیر ہیں
محبتوں میں ....... زہر جو بھرا ہے
لائق تعریز ہی سہی ....... طلب اپنی
بے جا تو نہیں محض تباہی کا گلہ ہے
شب ماہتاب کی وہ سنتا ہی کب تھا
سینے میں اس کے اندھیرا جو کھڑا ہے
دل رنجور پہ گراں طرز تغافل اُس کے
صورت ہجر پیالہ زہر جو بھرا ہے
ہم محروم سماعت صداۓ خوباں سے
خوبی تقدير پر یہ کیسا پردہ پڑا ہے
صورت شب ہی سہی آس کچھ تو ہو
کیسا وقت نارسائی آن کھڑا ہے
سینئہ فگار پر راہوار غم کیسے کیسے
آبگینئہ من پہ کیوں زوال پڑا ہے