غزل
اور کیا کرتا بیان ِ غم تمہارے سامنے
میری آنکھیں ہو گئیں پُرنم تمہارے سامنے
ہم جدائی میں تمہاری مر بھی سکتے ہیں مگر
چاہتے یہ ہیں کہ نکلے دم تمہارے سامنے
پھر خدا کی ذات سے کیوں کر تمہیں انکار ھے
ھے اگر تنظیم ِ دوعالم تمہارے سامنے
یہ ملال ِ موسم ِ رفتہ ھے آخر کس لیے
مُسکراتا ھے نیا موسم تمہارے سامنے
جس میں ہم دونوں کے بچپن کی بھی اِک تصویر ھے
ڈھونڈ کر لایا ہوں وہ البم تمہارے سامنے
آتے آتے لب پہ رہ جاتی ہیں دل کی حسرتیں
کھولتے ہیں ہم زباں کم کم تمہارے سامنے
تُم سمندر کی طرح آغوش وا کرتے نہیں
ہم تو بن جاتے ہیں موج ِ یم تمہارے سامنے
کس لیے تُم نیند میں شرما رہے ہو اِس طرح
خواب میں کیا آ گئے ہیں ہم تمہارے سامنے
تُم نے اپنے قد کا اندازہ لگایا ھے غلط
ھے اگر قامت ہماری کم تمہارے سامنے
یہ دلیل ِ گریہء موج ِ صبا یاور نہ ہو
ھے گُل ِ تازہ پہ جو شبنم تمہارے سامنے
یاور عظیم
اور کیا کرتا بیان ِ غم تمہارے سامنے
میری آنکھیں ہو گئیں پُرنم تمہارے سامنے
ہم جدائی میں تمہاری مر بھی سکتے ہیں مگر
چاہتے یہ ہیں کہ نکلے دم تمہارے سامنے
پھر خدا کی ذات سے کیوں کر تمہیں انکار ھے
ھے اگر تنظیم ِ دوعالم تمہارے سامنے
یہ ملال ِ موسم ِ رفتہ ھے آخر کس لیے
مُسکراتا ھے نیا موسم تمہارے سامنے
جس میں ہم دونوں کے بچپن کی بھی اِک تصویر ھے
ڈھونڈ کر لایا ہوں وہ البم تمہارے سامنے
آتے آتے لب پہ رہ جاتی ہیں دل کی حسرتیں
کھولتے ہیں ہم زباں کم کم تمہارے سامنے
تُم سمندر کی طرح آغوش وا کرتے نہیں
ہم تو بن جاتے ہیں موج ِ یم تمہارے سامنے
کس لیے تُم نیند میں شرما رہے ہو اِس طرح
خواب میں کیا آ گئے ہیں ہم تمہارے سامنے
تُم نے اپنے قد کا اندازہ لگایا ھے غلط
ھے اگر قامت ہماری کم تمہارے سامنے
یہ دلیل ِ گریہء موج ِ صبا یاور نہ ہو
ھے گُل ِ تازہ پہ جو شبنم تمہارے سامنے
یاور عظیم
---------- Post added at 05:33 AM ---------- Previous post was at 05:33 AM ----------
غزل
ہزاروں بار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
سر ِ بازار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
کبھی جن کی گھنی چھاوں میں دونوں بیٹھ جاتے تھے
وہ سب اشجار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
میں جب بھی پُوچھتا ہوں اپنے بارے میں خیال اُن کا
تو وہ ہر بار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
بہاریں جب چمن کی محفلوں میں مُسکراتی ہیں
گل و گلزار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
ہمارا راز ِ اُلفت آشکارا ہو گیا کیسے
کہ اب اغیار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
سر ِ محفل جو اپنا حال ِ دل کہتے نہیں یاور
پس ِ دیوار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
یاور عظیم
ہزاروں بار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
سر ِ بازار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
کبھی جن کی گھنی چھاوں میں دونوں بیٹھ جاتے تھے
وہ سب اشجار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
میں جب بھی پُوچھتا ہوں اپنے بارے میں خیال اُن کا
تو وہ ہر بار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
بہاریں جب چمن کی محفلوں میں مُسکراتی ہیں
گل و گلزار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
ہمارا راز ِ اُلفت آشکارا ہو گیا کیسے
کہ اب اغیار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
سر ِ محفل جو اپنا حال ِ دل کہتے نہیں یاور
پس ِ دیوار کہتے ہیں ہمیں تم سے محبت ھے
یاور عظیم
---------- Post added at 05:34 AM ---------- Previous post was at 05:33 AM ----------
غزل
پھر پیش ِ نظر صورت ِ مہتاب ھے کوئی
یا میری نگاہوں میں نیا خواب ھے کوئی
یہ بات گراں خواب کو اب کون بتائے
تیرے لیے اِس رات میں بےخواب ھے کوئی
پلکوں پہ جو روشن ھے سر ِ شام ِ تمنا
وہ اشک نہیں گوہر ِ نایاب ھے کوئی
یہ صرف کرشمہ ھے مری چشم ِ طلب کا
صحرا میں کہاں گلشن ِ شاداب ھے کوئی
دنیا کے صحیفے میں مری ذات بھی شاید
آلام و مصائب کا نیا باب ھے کوئی
ناواقف ِ آداب ِ محبت کو خبر کیا
کب سے رہ ِ امید میں بےتاب ھے کوئی
یہ کس کی جدائی میں تری آنکھ سے یاور
دن رات رواں موجہ ء خوناب ھے کوئی
یاور عظیم
---------- Post added at 05:36 AM ---------- Previous post was at 05:34 AM ----------
غزل
چُپ چاپ سر ِ شہر ِ وفا سوچ رہے ہو
لگتا ھے کوئی اپنی خطا سوچ رہے ہو
وہ کون ھے گُزرا تھا جو اِس راہگزر سے
کِس کے ہیں نقوش ِ کف ِ پا سوچ رہے ہو
تم سوچتے رہتے ہو کہ کیا دیکھ رہا ہوں
میں دیکھتا رہتا ہوں کہ کیا سوچ رہے ہو
خود اپنے گلستان کے پھولوں کو مسل کر
ناراض ھے کیوں موج ِ صبا سوچ رہے ہو
اِک وہ ہیں جو تکمیل ِ سفر کر بھی چکے ہیں
اِک تم ہو ابھی نام ِ خدا سوچ رہے ہو
یکرنگی ِ افکار کے اِس دور میں یاور
حیران ہوں تم سب سے جدا سوچ رہے ہو
یاور عظیم
چُپ چاپ سر ِ شہر ِ وفا سوچ رہے ہو
لگتا ھے کوئی اپنی خطا سوچ رہے ہو
وہ کون ھے گُزرا تھا جو اِس راہگزر سے
کِس کے ہیں نقوش ِ کف ِ پا سوچ رہے ہو
تم سوچتے رہتے ہو کہ کیا دیکھ رہا ہوں
میں دیکھتا رہتا ہوں کہ کیا سوچ رہے ہو
خود اپنے گلستان کے پھولوں کو مسل کر
ناراض ھے کیوں موج ِ صبا سوچ رہے ہو
اِک وہ ہیں جو تکمیل ِ سفر کر بھی چکے ہیں
اِک تم ہو ابھی نام ِ خدا سوچ رہے ہو
یکرنگی ِ افکار کے اِس دور میں یاور
حیران ہوں تم سب سے جدا سوچ رہے ہو
یاور عظیم
---------- Post added at 05:36 AM ---------- Previous post was at 05:36 AM ----------
غزل
باندھے گا زمانے کی نظر مجھ سے زیادہ
مشاق ہے وہ شعبدہ گرمجھ سے زیادہ
منزل کی تمنا میں سر ِ راہ ِ تمنا
ہو گا نہ کوئی خاک بسر مجھ سے زیادہ
وہ لوگ جو ہیں قلزم ِ دنیا کے شناور
رکھتے نہیں دنیا کی خبرمجھ سے زیادہ
آگے میں کسی شخص کو بڑھنے نہیں دیتا
بےشک ہو اُسے شوق ِ سفر مجھ سے زیادہ
کیوں سوئے فلک دیکھتے رہتے ہو بتائو
محبوب ہیں کیا شمس و قمر مجھ سے زیادہ
مانا کہ مری قدر ہے بازار ِ سُخن میں
ہے قیمتی لیکن وہ گُہر مجھ سے زیادہ
مجھ کو بھی تحیر ہے خدوخال پہ اپنے
حیران ہے آئینہ مگر مجھ سے زیادہ
یاور مری اِک عمر سمندر میں کٹی ہے
کس شخص نے دیکھے ہیں بھنور مجھ سے زیادہ
یاور عظیم
---------- Post added at 05:37 AM ---------- Previous post was at 05:36 AM ----------
غزل
سر ِ شہر ِ ہُنر ، رنگِ ہُنر تبدیل کر سکتا
اگر تُو اپنا انداز ِ نظر تبدیل کر سکتا
مجھے طوفان کا رُخ موڑتے رہنے کی عادت ھے
مری کشتی کا رُخ کیسے بھنور تبدیل کر سکتا
بھٹکتا کیوں سر ِ راہِ طلب صبح و مسا تنہا
اگر میں اِس مسافت کی ڈگر تبدیل کر سکتا
حق ِ تحریف جو حاصل کبھی ہوتا زمانے کو
زبور ِ وقت کی زیر و زبر تبدیل کر سکتا
مرے جینے کا یہ انداز پھر کُچھ اور ہی ہوتا
کسی صورت اگر شام و سحر تبدیل کر سکتا
ترے کہنے پہ جیسے خود کو پہلی بار بدلا تھا
میں اپنے آپ کو بار ِ دگر تبدیل کر سکتا
محبت کے شجر کو اِس طرح ہم سینچتے یاور
کوئی موسم نہ مقدار ِ ثمر تبدیل کر سکتا
یاور عظیم
---------- Post added at 05:38 AM ---------- Previous post was at 05:37 AM ----------
غزل
حُسن ِ اظہار کو رہوار بنایا اپنا
یُوں تغزل میں یہ معیار بنایا اپنا
اور ہوں گے جنہیں دنیا کی طلب ہوتی ہے
ہم نے دنیا کو طلب گار بنایا اپنا
ہم نے سُورج کی طرف اپنی ہتھیلی کر دی
دھوپ کے دشت میں چھتنار بنایا اپنا
آپ کا حال اگر لائق ِ اظہار نہ تھا
کیوں کسی شخص کو غمخوار بنایا اپنا
خواہش ِ دولت ِ دنیا کو بسا کر دل میں
سفر ِ زیست نہ دُشوار بنایا اپنا
دُوسری بار کسی اور کا ہونے نہ دیا
ہم نے جس شخص کو اک بار بنایا اپنا
رات اک منزل ِ خورشید کو پانے کے لیے
چاند کو قافلہ سالار بنایا اپنا
زندگی بھر جو ترے کام نہ آئے یاور!
کس لیے تُو نے اُنہیں یار بنایا اپنا
یاور عظیم
---------- Post added at 05:38 AM ---------- Previous post was at 05:38 AM ----------
غزل
آنکھوں میں سمایا ھے ترا چاند سا چہرا
قسمت نے دکھایا ھے ترا چاند سا چہرا
اُس خالق ِ مہتاب نے مہتاب سے بڑھ کر
پُرنور بنایا ھے ترا چاند سا چہرا
ھم خود سے ہیں ناراض اِسی بات پہ اب تک
کیوں ھم نے بُھلایا ھے ترا چاند سا چہرا
جس دل میں محبت کی طلب جاگ رہی تھی
اُس دل میں بسایا ھے ترا چاند سا چہرا
یہ رنج کی ظلمت تو مرے ساتھ رہی ھے
پھر کس نے بُجھایا ھے ترا چاند سا چہرا
خواہش ھے کہ دیکھوں ترے چہرے کو مسلسل
اِتنا مجھے بھایا ھے ترا چاند سا چہرا
یادوں کے دریچے میں ترے پیار کی خاطر
یاور نے سجایا ھے ترا چاند سا چہرا
یاور عظیم
---------- Post added at 05:39 AM ---------- Previous post was at 05:38 AM ----------
غزل
کتنا ہے معتبر یہ حوالہ مرے لیے
سورج لٹا رہا ہے اجالا مرے لیے
محو ِ خرام ہوں میں سر ِ عرش ِ آرزو
دو گام پر ہے عالم ِ بالا مرے لیے
مجھ کو پکارتی ہے پہاڑوں کی سر زمیں
پلکیں بچھا رہا ہے ہمالہ مرے لیے
ہر بت میں دیکھتا ہوں ترا پرتو ِ جمال
مسجد سے کم نہیں ہے شوالہ مرے لیے
پوری نہ ہو گی چاند کو چھونے کی آرزو
دیوار سا ہے چاند کا ہالہ مرے لیے
ساحل کی ریت پر یہ لکیریں عجیب ہیں
دریا نہ لکھ رہا ہو مقالہ مرے لیے
یاور عظیم ترک ِ مراسم کے باوجود
بےتاب ہے وہ چاہنے والا مرے لیے
یاور عظیم
---------- Post added at 05:39 AM ---------- Previous post was at 05:39 AM ----------
غزل
در ، کوئی سلامت ہے نہ دیوار سلامت
حیران ہوں ، کیسے ہے یہ گھربار سلامت
صد شکرکہ اِس دور ِگرانی میں ابھی تک
دل میں ہے تمناوں کا بازار سلامت
ہر وقت جسے اپنی ہزیمت کا ہو خدشہ
رہتا نہیں ، وہ لشکر ِ جرار سلامت
کیوں دل ہوکسی دھوپ کےطوفاں سےہراساں
سر پر ہے مرے سایہ ء اشجار سلامت
یہ کیسے مرے شہر کے حالات ہوئے ہیں
محفوظ ، مسیحا ہے نہ بیمار سلامت
دشمن مجھےمغلوب کبھی کر نہ سکے گا
جب تک ہے مرا جذبہ ء یلغار سلامت
کیوں محفل ِعشرت کی طرب خیزفضا میں
یاور ہے مری روح کا آزار سلامت
یاور عظیم
---------- Post added at 05:40 AM ---------- Previous post was at 05:39 AM ----------
تیری تصویر دیکھ کر
تیری معصوم جوانی کی قسم کھاتا ہوں
اپنی بےنام کہانی کی قسم کھاتا ہوں
میں نے پاکیزہ نگاہوں سے کئی بارصنم
تیری تصویر کو دیکھا ہے بڑے پیار کے ساتھ
تیرے پیکر پہ محبت سے نظر ڈالی ہے
زلف و رخسار کو چوما ہے بڑے پیار کے ساتھ
دل ِ حساس میں بھڑکی ہے ترے عشق کی آگ
خواہش ِ وصل نے بے تاب کیا ہے مجھ کو
تو مرے نام سے واقف بھی نہیں ہے شاید
کیوں تری یاد نے بے خواب کیا ہے مجھ کو
تیرے پیکر کو تراشا ہے مری جان ِ حیا
خالق ِ حسن کے ہاتھوں نے بڑی خوبی سے
وقت ِ تخلیق مصور نے یہی سوچا تھا
تجھ کو محروم نہ رکھے گا کسی خوبی سے
اپنے جذبات کی شدت کو بیاں کیسے کروں
اِس سے قاصر ہے ابھی جوہر ِ گفتار مرا
غم کی موجوں میں گھرا سوچ رہا ہوں کب سے
کیا کوئی لفظ نہیں حاصل ِ اظہار مرا
وقف کر کے یہ تغزل کا ہنر تیرے لیے
میں ترے حُسن کو اک اور ادا دے دوں گا
تیرے خاکے میں نئے رنگ سمو کر جاناں
تیری تصویر کو تنویر ِ بقا دے دوں گا
تیری معصوم جوانی کی قسم کھاتا ہوں
اپنی بےنام کہانی کی قسم کھاتا ہوں
یاور عظیم
تیری معصوم جوانی کی قسم کھاتا ہوں
اپنی بےنام کہانی کی قسم کھاتا ہوں
میں نے پاکیزہ نگاہوں سے کئی بارصنم
تیری تصویر کو دیکھا ہے بڑے پیار کے ساتھ
تیرے پیکر پہ محبت سے نظر ڈالی ہے
زلف و رخسار کو چوما ہے بڑے پیار کے ساتھ
دل ِ حساس میں بھڑکی ہے ترے عشق کی آگ
خواہش ِ وصل نے بے تاب کیا ہے مجھ کو
تو مرے نام سے واقف بھی نہیں ہے شاید
کیوں تری یاد نے بے خواب کیا ہے مجھ کو
تیرے پیکر کو تراشا ہے مری جان ِ حیا
خالق ِ حسن کے ہاتھوں نے بڑی خوبی سے
وقت ِ تخلیق مصور نے یہی سوچا تھا
تجھ کو محروم نہ رکھے گا کسی خوبی سے
اپنے جذبات کی شدت کو بیاں کیسے کروں
اِس سے قاصر ہے ابھی جوہر ِ گفتار مرا
غم کی موجوں میں گھرا سوچ رہا ہوں کب سے
کیا کوئی لفظ نہیں حاصل ِ اظہار مرا
وقف کر کے یہ تغزل کا ہنر تیرے لیے
میں ترے حُسن کو اک اور ادا دے دوں گا
تیرے خاکے میں نئے رنگ سمو کر جاناں
تیری تصویر کو تنویر ِ بقا دے دوں گا
تیری معصوم جوانی کی قسم کھاتا ہوں
اپنی بےنام کہانی کی قسم کھاتا ہوں
یاور عظیم
---------- Post added at 05:41 AM ---------- Previous post was at 05:40 AM ----------
غزل
محبت کا نگر آباد رکھنا
بلا خوف و خطر آباد رکھنا
محبت میں کوئی آساں نہیں ہے
وفا کی رہگذر آباد رکھنا
شکستہ ہیں در و دیوار اِس کے
بڑا مشکل ہے گھر آباد رکھنا
نئے افکار سے میرے خدایا
مرا شہر ِ ہنر آباد رکھنا
اُداسی کہہ رہی ہے شہر ِ جاں کی
ہمارے بام و در آباد رکھنا
تم اپنی جاگتی آنکھوں میں جاناں
کوئی خواب ِ سحر آباد رکھنا
کسی کی یاد میں دن رات یاور
دیار ِ چشم ِ تر آباد رکھنا
یاورعظیم
محبت کا نگر آباد رکھنا
بلا خوف و خطر آباد رکھنا
محبت میں کوئی آساں نہیں ہے
وفا کی رہگذر آباد رکھنا
شکستہ ہیں در و دیوار اِس کے
بڑا مشکل ہے گھر آباد رکھنا
نئے افکار سے میرے خدایا
مرا شہر ِ ہنر آباد رکھنا
اُداسی کہہ رہی ہے شہر ِ جاں کی
ہمارے بام و در آباد رکھنا
تم اپنی جاگتی آنکھوں میں جاناں
کوئی خواب ِ سحر آباد رکھنا
کسی کی یاد میں دن رات یاور
دیار ِ چشم ِ تر آباد رکھنا
یاورعظیم
---------- Post added at 05:42 AM ---------- Previous post was at 05:41 AM ----------
غزل
جب گزرگاہ ِ محبت نہ کشادہ ہو گی
جستجو منزل ِ جاناں کی زیادہ ہو گی
دل کے جذبوں پہ اندھیرے ہی مسلط ہوں گے
چاندنی جب نہ سر ِ بام ِ ارادہ ہو گی
رونق ِ محفل ِ بادہ ہے ہمارے دم سے
ہم نہ ہوں گے تو کہاں محفل ِ بادہ ہو گی
جب تلک ڈھانپ نہ لے چادر ِ افلاک مجھے
بے لباسی مرے پیکر کا لبادہ ہو گی
اب اگر لوٹ کے آئیں گے بچھڑنے والے
کوئی آغوش ِ محبت نہ کشادہ ہو گی
میری معصوم نظر ڈھونڈ رہی ہے اُس کو
کوئی لڑکی تو بھرے شہر میں سادہ ہو گی
یاور عظیم
---------- Post added at 05:43 AM ---------- Previous post was at 05:42 AM ----------
غزل
بس رہا ہے آنکھوں میں اِک جہان شیشے کا
ہے زمین شیشے کی آسمان شیشے کا
کیا سمجھ وہ پائے گا ، نقش اپنے چہرے کے
آدمی نہ ہو جب تک قدردان شیشے کا
رُوبرو ہمارے اِک روشنی کا پیکر ہے
روشنی کے پیکر پر ہے گمان شیشے کا
منزلِ محبت بھی کیا عجب مسافت ہے
راستے ہیں پتھر کے کاروان شیشے کا
دیکھتا ہوں میں اکثر ، نیند کے سمندر میں
کانچ کے سفینے پر بادبان شیشے کا
کُچھ خبر نہیں یاور ، کس لیے مرے سر پر
اُس نے تان رکھا ہے ، سائبان شیشے کا
یاور عظیم
---------- Post added at 05:49 AM ---------- Previous post was at 05:43 AM ----------
غزل
طوفان مقابل ہے نہ دھارا ہے مقابل
حیرت ہے کہ خاموش کنارہ ہے مقابل
اِن جشن مناتے ہوئے لوگوں کو خبر کیا
یہ جنگ تو کچھ سوچ کے ہارا ہے مقابل
اِس شہر سے اب ترک ِ سکونت ہی بھلی ہے
اِس شہر کا ہر شخص ہمارا ہے مقابل
اب صرصر ِ حالات کا رُخ تیری طرف ہے
یہ تیری ہزیمت کا اشارہ ہے مقابل
ہرچند کہ وہ دشمن ِ ایماں ہے ہمارا
لیکن ہمیں ہر حال میں پیارا ہے مقابل
تُم جیسے خدوخال کسی اور کے کب ہیں
وہ کون حسیں ہے جو تمہارا ہے مقابل
تسخیر ِ مہ و مہر تو آسان ہے لیکن
یاور مری قسمت کا ستارہ ہے مقابل
یاور عظیم
طوفان مقابل ہے نہ دھارا ہے مقابل
حیرت ہے کہ خاموش کنارہ ہے مقابل
اِن جشن مناتے ہوئے لوگوں کو خبر کیا
یہ جنگ تو کچھ سوچ کے ہارا ہے مقابل
اِس شہر سے اب ترک ِ سکونت ہی بھلی ہے
اِس شہر کا ہر شخص ہمارا ہے مقابل
اب صرصر ِ حالات کا رُخ تیری طرف ہے
یہ تیری ہزیمت کا اشارہ ہے مقابل
ہرچند کہ وہ دشمن ِ ایماں ہے ہمارا
لیکن ہمیں ہر حال میں پیارا ہے مقابل
تُم جیسے خدوخال کسی اور کے کب ہیں
وہ کون حسیں ہے جو تمہارا ہے مقابل
تسخیر ِ مہ و مہر تو آسان ہے لیکن
یاور مری قسمت کا ستارہ ہے مقابل
یاور عظیم
"تخلیقات" پبلشرز لاہور سے شائع ہونے والی ایک کتاب "2011 کی بہترین شاعری" میں
شامل میری ایک غزل
آپ کی قیمتی آرا کا منتظر....یاور عظیم