محبت
محبت۔۔ ۔ ۔ ۔ میں جب بھی اس لفظ کوسنتا ہوں۔۔ یا کہیں لکھا پڑھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ ۔
اس پر آخر ہم کتنا لکھ سکتے ہیں۔۔
کیونکہ اس پر اتنا لکھا جا چکا ہے آج تک کہ لگتا ہے کہ کوئی نیا خیال، نیا تجزیہ یا اور
الفاظ نہیں بچے جو اس احساس کے بارے میں کچھ اور کہہ سکیں۔۔
محبت احساس ہی تو ہے۔۔ لیکن پتہ نہیں کیا جادو ہے اس ایک لفظ "محبت" میں کہ زندگی کی
شروعات سے آج تک یہ اتنا ہی خوبصورت اور کچھ پراسرار سا محسوس ہوتا ہے۔۔ ۔ ۔
ہم اس کی پرتیں کھول کھول کر تھک جاتے ہیں۔ ۔ ۔یہ سوچ کر کہ اب ختم کہ اب ختم۔۔
لیکن کوئی پرت آخری پرت ثابت نہیں ہوتی۔۔۔ ۔۔
اور نہ ہی انسان کی تجسس کی حس اُسے رُکنے دیتی ہے کہیں۔۔
میں نے کہیں یہ پڑھا تھا کہ محبت ایک دوسرے کے اندر اگنے کا نام ہے۔۔
صحیح تو ہے محبت کی جڑیں تو بہت اندر تک پیوست ہوتی ہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔
لیکن کسی بھی میلے لفظ، کج ادائی سے جب یہی جڑیں سوکھ جائیں تو آپ کو اپنا آپ اس درخت
کی مانند لگتا ہے جس پر کبھی پھل نہیں آتا۔
ویسے کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ محبت کو برا کہنے والے بھی اس کے پیچھے اپنا خالی
کشکول لیے بھاگ رہے ہوتے ہیں ۔۔۔
یہ اچھی ہے یا بری ہے۔۔ ہمیں خوشیوں سے نوازتی ہو یا دکھوں کے انبار میں دھکیلتی ہو۔۔
ان سے باتوں کے قطع نظر ہم اس کی خواہش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔۔ یہ اک احساس ہے،
اک خوشبو ہے، اک جذبہ ہے، وفا ہے، خلوص ہے۔۔ بس محبت ہی محبت ہے
کہتے ہیں کہ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔ محبت ایک ہاتھ کی تالی ہے۔۔۔
جو بنا کسی لالچ، کسی غرض کے بس بجتی ہی چلی جاتی ہے۔۔ یہ نہ گلہ کرتی ہے نا شکایت۔۔
محبت تو بس دل کا سودا ہے، جو زور و ذبردستی سے نہ باندھا جا سکتا ہے اور نہ توڑا جا سکتا ہے۔۔۔
محبت بس محبت ہے