کوئی کپڑا پھٹ جائے تو اس کو سلائی لگ سکتی ہے، پھٹے ہوئے دل کو کون سی سکتا ہے۔۔کپڑا پھٹے تے لگے تروپّا دِل پھٹے کِس سِینا
سجنا باج محمد بخشاء کی مرنا کی جِینا
اپنے پیاروں کے بنا جینے مرنے میں کوئی فرق نہیں رہتا
دوست دوست تو ہر کوئی کہتا ہے اور میں بھی کہتا ہوں کہ میں فلاں کا دوست ہوںبیلی بیلی ہر کوئی آکھے تے میں وی آکھاں بیلی
اس ویلے دا کوئی نہ بیلی جدوں نکلے جان اکیلی ۔
ربّا توں بیلی تے سب جگ بیلی ان بیلی وی بیلی
سجناں باہجھ محمد بخشا سُنجی پئی حویلی
لیکن اس وقت کا کوئی دوست نہیں ہوتا جب نزع ہوتی ہے۔ تب جان اکیلے ہی نکلتی ہے
یا خدا، اگر آپ دوست ہیں تو سبھی دوست ہیں، حتی کہ دشمن بھی دوست ہیں
محمد بخشا، پیاروں کے بنا گھر ویران پڑا ہے ۔
سنگت بناتے ہوئے بہت احتیاط کی، طرح طرح کے جوڑ دیکھے، لیکن آخر کاردراڑے پڑ ہی گئیںسو سو جوڑ سنگت دے ویکھے آخر وتھاں پئیاں
جنہاں باہجوں اک پل نئیں سی لنگدا اج شکلاں یاد نا رہیاں
جن لوگوں کے بنا ایک لمحہ نہیں گزرتا تھا ، اب انہیں جدا ہوئے اتنا عرصہ ہو گیا کہ صفحہ ذہن سے ان کے چہرے بھی دھندلانے لگے ہیں ۔
پھٹا ہوا دامن اتنا پرانا ہو چکا ہے، کہ کب سے درزی سینے کی کوشش میں ہےپاٹا دامن ہویا پرانا،کچرک سیوے درزی ھو ۔
دل دا محرم کوئی نہ مِلیا،جو مِلیا سو غرضی ھو ۔ ۔
باجھ مُربّی کِسے نہ لدّھی،گَجھی رمز اندر دی ھو ۔
اُوسے راہ وَل جائیے باہو،جس تھیں خلقت ڈردی ھو ۔
۔
دل کو سمجھنے والا کوئی ملا ہی نہیں، جو بھی ملا فقط خود غرض
استاد کے بنا گہری چھپی ہوئی رمز کوئی پا ہی نہیں سکتا ۔
ہم تو اسی راہ (دیدارِذات کا راستہ ) کی طرف جائیں گے، جہاں جاتے ہوئے دنیا ڈرتی ہے۔
جَیں دِل عشق خرید نہ کیتا، سودل درد نہ پَھٹی ہو
اُس دل تھیں سنگ پتھرچنگیرے، جو دِل غفلت اَٹّی ہو
جَیں دل عشق حضور نہ منگیا، سو درگاہوں سَٹی ہو
مِلیا دوست نہ اُنہاں باہُو جنہاں چوڑ نہ کیتی تَرَٹّی ہو ۔
جس دل نےعشق كا سودا نہ كيا اورعشقِ حقیقی سے گهائل نہ ہوا وه دل درد اورسوزسے محروم ہے
اس غافل دل سے تو پتھراچھے ہيں۔
اورجس دل نے خدائے تعالی کی عشق کی طلب نہ کی وه راندۀ درگاہ ہوگيا۔
جو لوگ اپنا تن من گھر بار قربان نہیں کرتے ان لوگوں کو وصالِ تعالی بھی نہیں ملتا۔
@Kavi معذرت اس وقت ایسے ہی دل نہیں چاہ رہا تھا لکھنے کو اب سوچا کہ ۔ خیر سادہ سا ترجمہ کر دیا ہے ۔