فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ميں نے کبھی يہ دعوی نہيں کيا کہ امريکہ تمام تر جرائم اور مسائل سے پاک ايک ناقابل تسخير ملک ہے۔ آپ نے امريکی سرحدوں پر ميکسيکو کے ڈرگ لارڈز کے حوالے سے بالکل درست نشاندہی کی ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ منشيات کا کاروبار ايک پيچيدہ اور سنجيدہ مسلہ ہے۔ ليکن اس مسلۓ کا پاکستان اور افغانستان ميں موجود دہشت گردی کے ايشو سے مقابلہ کرنا حقائق سے انحراف ہے۔
سب سے پہلی بات تويہ ہے کہ منشيات کے دھندے ميں ملوث افراد جرائم پيشہ ہيں جن کا اصل مقصد دولت کا حصول ہے جبکہ القائدہ اور ان سے منسلک دہشت گرد دانستہ زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کے قتل کے ذريعے ايک بڑے خطے پر اپنے سياسی اثر ورسوخ ميں اضافے کے خواہ ہيں۔ يہ حقيقت مغربی ميڈيا يا اداروں کی رپورٹ کی بنياد پر نہيں بلکہ ان کے اپنے الفاظ اور اعمال سے واضح ہے۔
اس کے علاوہ منشيات کے کاروبار ميں ملوث افراد کا مقصد حکومت پر قبضہ کرنا نہيں ہوتا بلکہ محض اپنے غير قانونی بزنس کی حفاظت ہوتا ہے۔ ان کا مقصد عالمی سطح پر آبادی کے بڑے حصے پر تسلط قائم کرنا نہيں ہوتا۔ اس کے مقابلے ميں دہشت گردی ايک عالمی تحريک ہے جس کا ايک سياسی مقصد ہے جس کے تحت عام لوگوں کی زندگيوں کو تبديل کرنا ہے۔ کوئ بھی ملک يا گروہ اپنی سياسی اور مذہبی وابستگی سے قطع نظر اس وبا سے محفوظ نہيں ہے۔ دہشت گردوں کی پہنچ عالمی سطح پر ہے اور انھوں نے امريکہ، يورپ، ايشيا سميت بے شمار ممالک ميں بے گناہ افراد کو قتل کيا ہے، جس ميں سے بيشتر مسلمان تھے۔
چونکہ دہشت گرد ايک نظريے کی ترجمانی کرتے ہیں، اس ليے وہ ہميشہ نۓ ممبران کی تلاش ميں ہوتے ہیں جو ان کی صفوں ميں شامل ہو سکيں۔ اور سب سے اہم بات يہ ہے کہ انھوں نے مذہب کےغلط استعمال اور اس کی غلط تشريح کے ذريعے نوجوانوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے۔
ميں يہ بھی واضح کر دوں کہ جہاں تک منشيات کے کاروبار سے لاحق خطرات کا سوال ہے تو امريکی حکومت اس سے انکاری نہيں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان ميں بعض مکتبہ فکر کے افراد حقائق کو تسليم کرنے کو تيار نہيں ہیں اور دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان، خطے اور عالمی برادری کو درپيش خطرات کو تسليم کرنے سے انکاری ہیں۔
امريکی حکومت کی جانب سے ساؤتھ امريکہ خاص طور پر کولمبيا ميں منشيات کے کاروبار کی روک تھام کے ليے کی جانے والی مسلسل کوششوں کے ضمن ميں خاص طور پر 5 بلين ڈالرز کے اس امدادی پيکج کا ذکر کروں گا جو "پلين کولمبيا" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ يہاں يہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کولمبيا ميں حکومت کے خلاف جنگ ميں ملوث ايک گوريلا گروپ اپنی کاروائيوں کی تکميل کے لیے براہراست منشيات کے کاروبار ميں ملوث ہے بالکل اسی طرح جيسے افغانستان ميں طالبان۔
سال 2008 تک پلان کولمبيا کے تحت کولمبين فوج کی فوجی کاروائيوں کے ضمن ميں امريکی امداد کی تفصيل کچھ يوں ہے۔
آرمی فضائ بريگيڈ (سال 2000 تا 2008 تک تخمينہ 844$ ملين ڈالرز)
نيسنل پوليس ائر سروس (سال 2000 تا 2008 تک تخمينہ 463$ ملين ڈالرز)
نيشنل پوليس ارريڈيکيشن پروگرام (سال 2000 تا 2008 تک تخمينہ 458$ ملين ڈالرز)
نيشنل پوليس انٹرڈيکيشن پروگرام (سال 2000 تا 2008 تک تخمينہ 153$ ملين ڈالرز)
دفاعی تعميراتی حکمت عملی (سال 2000 تا 2008 تک تخمينہ 115$ ملين ڈالرز)
زمينی آرمڈ فورسز (سال 2000 تا 2008 تک تخمينہ 104$ ملين ڈالرز)
حساس علاقوں ميں پوليس کی موجودگی (سال 2000 تا 2008 تک تخمينہ 92$ ملين ڈالرز)
خشکی اور آبی خطوں کی نگرانی (سال 2000 تا 2008 تک تخمينہ 89$ ملين ڈالرز)
فضائ نگرانی (سال 2000 تا 2008 تک تخمينہ 62$ ملين ڈالرز)
اس کے علاوہ سال 2000 سے سال 2008 کے درميان اہم فلائٹ سيفٹی پروگرام کے علاوہ ديگر کئ منصوبوں کے ضمن ميں مزيد 2 بلين ڈالرز سے زائد کی امداد فراہم کی گئ۔
امريکی حکومت کی جانب سے اس مسلۓ کے خاتمے کے ليے کی جانے والی کوششوں کی سنجيدگی کا اندازہ اس بات سے لگايا جا سکتا ہے کہ جب صدر بل کلنٹن نے سال 2000 ميں منشيات کے خاتمے کے لیے ايمرجنسی بنيادوں پر 3۔1 بلين ڈالرز کی اضافی امداد کی منظوری دی تو کولمبيا امريکہ کی جانب سے دفاعی امداد وصول کرنے والا تيسرا سب سے بڑا ملک بن گيا۔
اس امداد کے سبب کولمبيا فوج کی تين بٹالينيز کو ہتھيار اور تربيت کے ذريعے اس قابل بنايا جا سکا کہ وہ فضا سے کی جانے والی کاروائيوں کے ضمن ميں زمينی مدد فراہم کر سکيں۔
پلان کولمبيا کے ضمن ميں دی جانے والی امداد ميں سے 7۔458 ملين ڈالرز(جو کہ کل امداد کا 35 فيصد بنتا ہے) ديگر ہمسايہ ممالک کو بھی ديا گيا۔
اپريل 2001 ميں صدر بش نے منشيات کی روک تھام کے ضمن ميں اينڈين کاؤنٹر ڈرگ کے نام سے ايک نئ حکمت عمل کا اعلان کيا جس کے تحت اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے عالمی ڈرگ فنڈ اور آئ –اين –ايل سے 731 ملين ڈالرز اور ڈيفينس ڈيپارٹمنٹ سے 107 ملين ڈالرز فراہم کيے گۓ۔ اگرچہ اس امداد کا بڑا حصہ (قريب 57 فيصد) کولمبيا کو فراہم کيا گيا ليکن صدر بش کی جانب سے ديے جانے والے پيکج کے ذريعے علاقے کے ديگر ممالک کی دفاعی صلاحيتوں ميں اضافے کے ليے دی جانے والی امداد ميں خاطر خواہ اضافہ کيا گيا جس ميں برازيل کو دی جانے والی امداد ميں 345 فيصد اور بوليويا کو دی جانے والی امداد ميں 20 فيصد اضافہ کيا گيا۔
جون 2008 ميں امريکی کانگريس ميں "ميريڈيا اينی شيٹو" کے ذريعے ميکيسيکو کو 400 ملين ڈالرز اور وسطی امريکہ کے ممالک کو 65 ملين ڈالرز کی امداد کی منظوری دی گئ۔ اس منصوبے کا اعلان 22 اکتوبر 2007 کو کيا گيا اور 30 جون 2008 کو اس پر باقاعدہ دستخط کيے گۓ۔
"ميريڈيا اينی شيٹو" کے ذريعے کل وقتی بنيادوں پر امريکہ اپنے اشتراکی ممالک کی ايجينسيوں کی ماہرانہ صلاحيتوں میں اضافے کے لیے تکنيکی تربيت اور سازوسامان کی فراہمی کو يقينی بناۓ گا۔
ان تمام اعداد وشمار سے يہ ثابت ہو جاتا ہے کہ يہ تاثر کہ امريکہ اپنی سرحدوں اور اس خطے پر منشيات کے کاروبار کو نظرانداز کر رہا ہے حقائق پر مبنی نہيں ہے۔ امريکی حکومت کے اقدامات سے يہ واضح ہے کہ امريکہ اس مسلۓ کے حل کے ليے سنجيدگی سے اقدامات کر رہا ہے۔ کيا پاکستان ميں دہشت گردی کے ضمن میں يہی بات کہی جا سکتی ہے؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
[email protected]
www.state.gov