تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
حسنِ یزداں سے تجھے حسنِ بتاں تک دیکھوں
تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دل میں تیرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسنِ بیاں تک دیکھوں
میرے ویرانہء جاں میں تیری یادوں کے طفیل
پھول کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں
وقت نے ذہن میں دھندلادیئے تیرے خدوخال
یوں تو میں توٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
ایک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں
************************************************
ملیں ہم کبھی تو ایسے کہ حجاب بھول جائے
میں سوال بھول جاؤں، تُو جواب بھول جائے
کبھی تُو جو پڑھنے بیٹھے، مجھے حرف حرف دیکھے
تیری آنکھیں بھیگ جائیں، تُو کتاب بھول جائے
تیری سوچ پر ہو حاوی میری یاد اس طرح سے
کہ تُو اپنی زندگی کا یہ نصاب بھول جائے
تُو کسی خیال میں ہو اور اُسی خیال میں ہی
کبھی میرے راستے میں تُو گلاب بھول جائے
تُو جو دیکھے میری جانب تو بچُوں میں اک گناہ سے
تجھے دیکھ لوں میں اتنا کہ شراب بھول جائے
مجھے غم تو دے رہا ہے، اور اُس پہ چاہتا ہے
میں حساب رکھ نہ پاؤں، وہ حساب بھول جائے
**********************************
************************************************
ملیں ہم کبھی تو ایسے کہ حجاب بھول جائے
میں سوال بھول جاؤں، تُو جواب بھول جائے
کبھی تُو جو پڑھنے بیٹھے، مجھے حرف حرف دیکھے
تیری آنکھیں بھیگ جائیں، تُو کتاب بھول جائے
تیری سوچ پر ہو حاوی میری یاد اس طرح سے
کہ تُو اپنی زندگی کا یہ نصاب بھول جائے
تُو کسی خیال میں ہو اور اُسی خیال میں ہی
کبھی میرے راستے میں تُو گلاب بھول جائے
تُو جو دیکھے میری جانب تو بچُوں میں اک گناہ سے
تجھے دیکھ لوں میں اتنا کہ شراب بھول جائے
مجھے غم تو دے رہا ہے، اور اُس پہ چاہتا ہے
میں حساب رکھ نہ پاؤں، وہ حساب بھول جائے
**********************************
شامِل تھا یہ سِتم بھی کسی کے نصاب میں
تِتلی ملی حنُوط پُرانی کتاب میں
دیکھوں گا کِس طرح سے کسی کو عذاب میں
سب کے گناہ ڈال دے میرے حساب میں
پھر بے وفا کو بحرِ محبت سمجھ لیا
پھر دل کی ناؤ ڈُوب گئی ہے سرَاب میں
پہلے گلاب اُس میں دِکھائی دیا مجھے
اب وہ مجھے دِکھائی دیا ہے گلاب میں
وہ رنگِ آتشیں، وہ دہکتا ہوا شباب
چہرے نے جیسے آگ لگا دی نقاب میں
بارش نے اپنا عکس کہیں دیکھنا نہ ہو
کیوں آئینے اُبھرنے لگے ہیں حباب میں
گردش کی تیزیوں نے اُسے نُور کر دیا
مٹی چمک رہی ہے یہی آفتاب میں
اُس سنگدل کو میں نے پکارا تو تھا عدیم
اپنی صدا ہی لوٹ کر آئی جواب میں
************************