’’اماں! خیریت اس وقت۔‘‘
’’کیوں بھئی اس وقت کیا ہے؟ بازار کے بکھیڑے تو اسی وقت نمٹائے جائیں گے۔‘‘ وہ بولیں۔
’’اماں! آج پہلا روزہ تھا‘ بہت عجیب سی کیفیت ہے۔ ‘‘ اس نے عذر پیش کیا۔
’’زریاب! دماغ ٹھیک ہے تمہارا‘ روزے کے ساتھ بازاروں کے چکر نہیں لگتے‘ چلو ضروری جاناہے۔‘‘ انہوں نے اسے لتاڑا کہ زریاب گم صم سا حنا بھابی کا منہ دیکھنے لگا۔ اماں اپنا بٹوہ اور سامان کی فہرست اٹھائے کمرے میں گئیں تو بولا۔
’’بھابی! اماں کو بتادینا چاہیے‘ راحمین بہت ضدی لڑکی ہے‘ بعد میں اماں بہت خفا ہوں گی۔‘‘
’’نہیں! میں نے طاہرہ مامی کو بتادیاہے‘ اب جو کہنا ہے وہ کہیں اور کچھ دیر پہلے اماں نے اشرف ماموں اور طاہرہ مامی سے بات کی ہے‘ انہوں نے انکار کیا ہوتا تو اماں بتادیتیں۔‘‘
’’توپھر۔‘‘
’’پھر یہ کہ اللہ پر توکّل رکھ کے خاموشی سے ویسا کرو‘ جیسا اماں چاہتی ہیں۔‘‘
’’لیکن…‘‘
’’لیکن کیا…؟‘‘ اماں نے آتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں‘ آیئے چلیں۔‘‘ زریاب ٹال گیا۔ حنا اور اماں ساتھ ساتھ چلنے لگیں۔
زریاب دل ہی دل میں راحمین کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اسے اب تک یقین نہیں آیا تھا کہ راحمین شادی سے انکار کرے گی۔ جس سے وہ شدید محبت کرتا ہے اور جسے خود راحمین نے بھی پسند کیا‘ منگنی کی انگوٹھی پہنتے ہوئے کتنے خوب صورت انداز میں شرمائی تھی‘ اب اسے کیا ہوگیا۔ کہیں اور کوئی تو… اتنا سوچ کر ہی وہ بے قرار ہوگیا۔
…٭٭٭…
اشرف صاحب نے طاہرہ کو بتایا تو وہ پھٹ پڑیں۔
’’اشرف! آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ بیٹی نے بچوں کا کھیل سمجھا اورآپ نے مان لیا۔‘‘
’’تو کیا کروں؟ کیا ضرورت تھی ڈرانے کی۔ ارے بچی ہے شادی کے بعد خود سمجھ جاتی۔‘‘ وہ بھی غصے سے بولے۔
’’برسبیل تذکرہ چھوٹی سی نصیحت کردی تو اسے ضد بنالیا‘ کتنی نامعقول بات ہے‘ اپنی بہن کا سوچیں اور اپنی عزت کا سوچیں لوگ کیا کہیں گے۔ آپ باپ ہیں۔‘‘ وہ بہت جذباتی ہوگئیں۔
’’اچھا! کچھ حل نکالتے ہیں۔‘‘ وہ نرم پڑگئے۔
’’کس بات کا حل؟ شادی ہوگی بس۔‘‘
’’سوچتا ہوں‘ تم اسے کچھ نہ کہنا۔‘‘
’’مجھے خاموش کراکرا بیٹی کو خود سر اور بدتمیز بنادیا ہے۔ انگریزی تعلیم کے سوا کیا ہے اس کے پاس۔ نا نماز‘ نا روزہ‘ دین اور دنیا دونوں ہی اکارت۔‘‘ طاہرہ بڑبڑاتی ہوئی چلی گئیں تو اشرف صاحب آفس کے لیے تیار ہونے لگے۔
مزید دو روز خاموشی کی نذر ہوگئے پھر اتفاقاً نغمہ آپا کی علالت کی اطلاع آئی تواشرف صاحب نے فوری طور پر سب کے ساتھ لاہور جانے کا فیصلہ کیا۔ راحمین کو کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ وہ بڑے نارمل انداز میں ہنستی مسکراتی ساتھ گئی۔ نغمہ آپا کا شوگر لیول کم ہوگیا تھا۔ دو روز ٹھہر کر اشرف صاحب‘ طاہرہ اور اماں جان واپس آگئے۔ حنا کے سمجھانے پر راحمین کو چند دن کے لیے چھوڑ آئے۔ آتے ہوئے طاہرہ نے زریاب اور حنا کو راحمین کے انکار کی وجہ بتادی جس پر وہ دونوں مطمئن ہوگئے۔ انہیں راحمین کے معصوم سے انکار کی وجہ نے بہت لطف دیا‘ راحمین نے رکنے پر ہچکچاہٹ کی لیکن پھر حنا کے اصرار پر رک گئی۔ زریاب تو اس سے ویسے بھی کھچا کھچا تھا لیکن راحمین کو کہاں اس بات کی پروا تھی۔ وہ ماں باپ کے یہاں سے خاموشی سے جانے پر حیران تھی۔ دادی کو بھی اس نے کئی بار ٹٹولا مگر شادی سے انکار والی بات کسی نے نہیں کی بس طاہرہ نے فقط جاتے ہوئے اتنا کہا۔
’’شادی کے معاملے میں زبان بالکل بند رکھنا‘ جو کہنا سننا ہے‘ وہ ہم کہیں گے۔ نغمہ آپا کی طبیعت ناساز ہے فی الحال ایسی کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘ طاہرہ کی بات پر وہ چپ ہوگئی۔
اس وقت وہ حنا بھابی اور ننھے چاند کے ساتھ پھوپو کے پاس بیٹھی تھی۔ تبھی زریاب آگیا اور اسے نظر انداز کرتے ہوئے حنا سے بولا۔
’’بھابی! یہ گلاب دین اور جمیلہ کہاں ہیں؟‘‘
’’ہاں‘ وہ اپنے گائوں گئے ہیں‘ گلاب دین کی اماں کی طبیعت خراب ہے۔ ایک ہفتے کی چھٹی پر گئے ہیں۔‘‘ حنا نے بتایا۔
’’اور اب گوشت سبزی‘ پھل کون سنبھالے گا اور سب چیزیں کچن میں رکھی ہیں میں نے؟‘‘ وہ بولا۔
’’اوہ! میں تو چاند کو نہلانے جارہی ہوں‘ پلیز راحمین سب چیزیں دیکھ لو۔‘‘ حنا نے براہ راست راحمین کو مخاطب کیا تو وہ جز بز سی اٹھی اور ہکلائی۔
’’جی… جی… میں جاتی ہوں۔‘‘ وہ جانے لگی تو زریاب کو جیسے یاد آگیا۔
’’بھابی! میری شرٹ بھی استری نہیں ہے۔‘‘
’’راحمین میری جان! کچن سے فارغ ہوکر صرف ایک شرٹ زریاب کی استری کردینا‘ باقی میں کردوں گی۔‘‘
’’جی…؟‘‘ راحمین کے منہ سے کچھ عجیب سے اندا زمیں نکلا۔ زریاب باہر نکل گیا تو راحمین بھی باہر نکل آئی۔
راحمین نے شاید زندگی میں پہلی مرتبہ کام کرنے تھے‘ وہ پریشان حال کچن میں سب چیزوں کو دیکھ رہی تھی۔ زریاب نے دانستہ جھانک کر دیکھا اور اندر آگیا۔
’’پریشان ہو۔‘‘ وہ بولا۔
’’یہ سب چیزیں کہاں اور کیسے رکھنی ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’گوشت صاف کرکے دھونا اور پھر پانی نکلنے کے بعد ڈیپ فریزر میں رکھو۔ سبزیاں اور پھل دھوکر فریج میں رکھتے ہیں۔‘‘ زریاب یہ کہہ کر چلا گیا‘ وہ سر تھام کے رہ گئی۔ اتنے مشکل کام…
شرٹ الٹی سیدھی استری کرکے فارغ ہوئی تو سر میں درد ہورہا تھا۔ جسم تھکن سے چُور تھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کس سے ایک کپ چائے بنوائے؟ حنا بھابی روزے سے تھیں انہیں بھی نہیں کہہ سکتی تھی۔ لہٰذا بیڈ پر تکیے میں منہ دے کر سوگئی۔ آنکھ حنا بھابی کی آواز پر کھلی۔
’’راحمین! پلیز افطار کا وقت ہورہا ہے‘ کچن میں میری مدد کرادو۔‘‘
’’جی‘ میں…؟‘‘ وہ بمشکل یہ کہہ کر اٹھی۔
’’جلد آجائو‘ پکوڑے اور فروٹ چاٹ تم بنالو۔‘‘ حنا بھابی یہ کہہ کر چلی گئیں۔ اسے اچھا نہیں لگا کیوں کہ ایسا کوئی کام اسے آتا ہی نہیں تھا۔ زریاب نے کمرے میں جھانکا تو وہ جلدی سے بولی۔
’’زریاب!‘‘
’’جی!‘‘
’’مجھے واپس جانا ہے۔‘‘
’’اتنی جلدی۔‘‘ وہ چونکا۔
’’وہ بس‘ مجھے کچھ آتا نہیں‘ شرمندگی سے بہتر ہے کہ چلی جائوں۔‘‘ وہ خاصی نرمی سے بولی۔
’’بس اتنی سی بات ہے‘ حنا بھابی سے پوچھ لیا کرو‘ وہ سب کچھ سیکھادیں گی۔‘‘
’’مجھے ایسے کام نہیں سیکھنے۔‘‘ وہ بولی۔
’’تو پھر نہ سیکھو‘ پریشانی کیا ہے؟‘‘
’’ایسے کاموں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘ اسی لیے تو شادی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
’’اچھا فیصلہ ہے‘ اسی لیے اب میری شادی ایسی لڑکی سے ہورہی ہے جسے سب کاموں سے دلچسپی ہے۔‘‘ زریاب نے جواب دیا تو وہ حیران سی دیکھتی رہ گئی۔ وہ چلا گیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کچن میں پہنچ گئی۔ حنا بھابی تیزی سے افطاری کے کاموں میں مصروف تھیں۔
افطار کا وقت قریب تھا۔ اس نے حنا بھابی کی ہدایت کے مطابق میزپر برتن لگائے‘سب تیار شدہ چیزیں لاکر رکھیں۔ کچھ ہی دیر میں اوصاف اور زریاب آگئے۔ نغمہ آپا نے تو طبیعت خرابی کے باعث روزہ نہیں رکھا تھا۔ اس کا بھی روزہ نہیں تھا‘ زریاب نے سب چیزوں کو غور سے دیکھا اور تعریف کی۔
’’بھئی پکوڑے اور فروٹ چاٹ راحمین نے بنائے ہیں۔‘‘ حنا بھابی نے کہا۔
’’مزہ تو تب ہے کہ راحمین روزے بھی رکھے۔‘‘ زریاب نے گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔ راحمین خجالت سے مسکرادی۔ اوصاف بھائی نے اس کی طرف سے کہا۔
’’یہ کون سی بڑی بات ہے سب کے ساتھ اٹھے گی تو روزہ بھی رکھ لے گی۔‘‘ وہ کچھ نہ بولی۔
پھر ایسا ہی ہوا۔ حنا بھابی نے اسے گہری نیند سے جگادیا۔
’’راحمین! چاند کو ٹمپریچر سا ہے‘ سو نہیں رہا ذرا سحری کے لیے آملیٹ تو بنائو میں آتی ہوں۔‘‘ اسے بہت غصہ آیا مگر بول نہ سکی‘ اٹھنا پڑا۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے‘ دوپٹا لیا اور باہر نکلی۔ تیزی سے اپنی فہم کے مطابق آملیٹ بنایا‘ حنا بھابی نے پراٹھے بنائے‘ اس نے چائے کا پانی رکھا‘ برتن لگائے‘ سب کے ساتھ کھانا پڑا۔ حنا بھابی نے بآواز بلند روزہ رکھنے کی دعا پڑھی پھر اوصاف اور زریاب مسجد گئے تو حنا بھابی نے اس کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی‘ نماز پڑھ کر اسے کافی اچھالگا۔ نغمہ پھوپو کی آواز آئی تو وہ ان کے پاس آگئی۔ گلابی دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ دیکھ کر نغمہ پھوپو کھل اٹھیں۔
’’ماشاء اللہ! جیتی رہو‘ کتنا نور ہے میری بیٹی کے چہرے پر۔‘‘ وہ خوش ہوگئی۔
’’آپ کے لیے چائے لائوں۔‘‘ پہلی بار اس نے پوچھا۔
’’نہیں‘ بس مجھے الماری سے قرآن پاک نکال کر دو۔‘‘
’’جی بہتر!‘‘ اس نے جلدی سے الماری کھول کر سبز غلاف شدہ قرآن پاک نکالا اور انہیں تھمادیا۔
’’جائو جاکر آرام کرلوبیٹا!‘‘ انہوں نے کہا تو وہ اٹھ کر آگئی۔
زریاب سے پھوپو کے کمرے کے باہر ٹکرائو ہوگیا۔ دوپٹے میں پاکیزہ پاکیزہ سی راحمین بہت اچھی لگی۔ نظریں اس کے چہرے پر جم سی گئیں مگر اس کے بولنے سے بوکھلایا۔
’’زریاب! ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’ہاں‘ وہ تم بالکل میری ہونے والی بیوی جیسی لگ رہی ہو‘ سوری…!‘‘
’’حیرت ہے۔‘‘
’’حیرت کی کوئی بات نہیں ہے‘ تم اس سے ملو گی تو دیکھتی رہ جائو گی۔‘‘
’’تو کب ملوا رہے ہیں اس سے۔‘‘
’’ان شاء اللہ عید کے بعد۔‘‘
’’مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ آگے بڑھ گئی‘ زریاب کو ہنسی آگئی۔
وہ کمرے میں آکر بھی کافی ڈسٹرب سی رہی۔ ذرا دیر کو بیڈ پر دراز ہوئی تو حنا بھابی کافی سارے کپڑے اٹھائے اس کے پاس آگئیں۔
’’راحمین! یہ کپڑے ٹیلر کو دینے ہیں‘ بتائو تو کیسے سلنے چاہئیں؟‘‘
’’وہ بس‘ مجھے کچھ آتا نہیں‘ شرمندگی سے بہتر ہے کہ چلی جائوں۔‘‘ وہ خاصی نرمی سے بولی۔
’’بس اتنی سی بات ہے‘ حنا بھابی سے پوچھ لیا کرو‘ وہ سب کچھ سیکھادیں گی۔‘‘
’’مجھے ایسے کام نہیں سیکھنے۔‘‘ وہ بولی۔
’’تو پھر نہ سیکھو‘ پریشانی کیا ہے؟‘‘
’’ایسے کاموں سے میرا کوئی واسطہ نہیں‘ اسی لیے تو شادی نہیں کرنا چاہتی۔‘‘ وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
’’اچھا فیصلہ ہے‘ اسی لیے اب میری شادی ایسی لڑکی سے ہورہی ہے جسے سب کاموں سے دلچسپی ہے۔‘‘ زریاب نے جواب دیا تو وہ حیران سی دیکھتی رہ گئی۔ وہ چلا گیا تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کچن میں پہنچ گئی۔ حنا بھابی تیزی سے افطاری کے کاموں میں مصروف تھیں۔
افطار کا وقت قریب تھا۔ اس نے حنا بھابی کی ہدایت کے مطابق میزپر برتن لگائے‘سب تیار شدہ چیزیں لاکر رکھیں۔ کچھ ہی دیر میں اوصاف اور زریاب آگئے۔ نغمہ آپا نے تو طبیعت خرابی کے باعث روزہ نہیں رکھا تھا۔ اس کا بھی روزہ نہیں تھا‘ زریاب نے سب چیزوں کو غور سے دیکھا اور تعریف کی۔
’’بھئی پکوڑے اور فروٹ چاٹ راحمین نے بنائے ہیں۔‘‘ حنا بھابی نے کہا۔
’’مزہ تو تب ہے کہ راحمین روزے بھی رکھے۔‘‘ زریاب نے گھڑی پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔ راحمین خجالت سے مسکرادی۔ اوصاف بھائی نے اس کی طرف سے کہا۔
’’یہ کون سی بڑی بات ہے سب کے ساتھ اٹھے گی تو روزہ بھی رکھ لے گی۔‘‘ وہ کچھ نہ بولی۔
پھر ایسا ہی ہوا۔ حنا بھابی نے اسے گہری نیند سے جگادیا۔
’’راحمین! چاند کو ٹمپریچر سا ہے‘ سو نہیں رہا ذرا سحری کے لیے آملیٹ تو بنائو میں آتی ہوں۔‘‘ اسے بہت غصہ آیا مگر بول نہ سکی‘ اٹھنا پڑا۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے‘ دوپٹا لیا اور باہر نکلی۔ تیزی سے اپنی فہم کے مطابق آملیٹ بنایا‘ حنا بھابی نے پراٹھے بنائے‘ اس نے چائے کا پانی رکھا‘ برتن لگائے‘ سب کے ساتھ کھانا پڑا۔ حنا بھابی نے بآواز بلند روزہ رکھنے کی دعا پڑھی پھر اوصاف اور زریاب مسجد گئے تو حنا بھابی نے اس کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی‘ نماز پڑھ کر اسے کافی اچھالگا۔ نغمہ پھوپو کی آواز آئی تو وہ ان کے پاس آگئی۔ گلابی دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ دیکھ کر نغمہ پھوپو کھل اٹھیں۔
’’ماشاء اللہ! جیتی رہو‘ کتنا نور ہے میری بیٹی کے چہرے پر۔‘‘ وہ خوش ہوگئی۔
’’آپ کے لیے چائے لائوں۔‘‘ پہلی بار اس نے پوچھا۔
’’نہیں‘ بس مجھے الماری سے قرآن پاک نکال کر دو۔‘‘
’’جی بہتر!‘‘ اس نے جلدی سے الماری کھول کر سبز غلاف شدہ قرآن پاک نکالا اور انہیں تھمادیا۔
’’جائو جاکر آرام کرلوبیٹا!‘‘ انہوں نے کہا تو وہ اٹھ کر آگئی۔
زریاب سے پھوپو کے کمرے کے باہر ٹکرائو ہوگیا۔ دوپٹے میں پاکیزہ پاکیزہ سی راحمین بہت اچھی لگی۔ نظریں اس کے چہرے پر جم سی گئیں مگر اس کے بولنے سے بوکھلایا۔
’’زریاب! ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’ہاں‘ وہ تم بالکل میری ہونے والی بیوی جیسی لگ رہی ہو‘ سوری…!‘‘
’’حیرت ہے۔‘‘
’’حیرت کی کوئی بات نہیں ہے‘ تم اس سے ملو گی تو دیکھتی رہ جائو گی۔‘‘
’’تو کب ملوا رہے ہیں اس سے۔‘‘
’’ان شاء اللہ عید کے بعد۔‘‘
’’مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ وہ آگے بڑھ گئی‘ زریاب کو ہنسی آگئی۔
وہ کمرے میں آکر بھی کافی ڈسٹرب سی رہی۔ ذرا دیر کو بیڈ پر دراز ہوئی تو حنا بھابی کافی سارے کپڑے اٹھائے اس کے پاس آگئیں۔
’’راحمین! یہ کپڑے ٹیلر کو دینے ہیں‘ بتائو تو کیسے سلنے چاہئیں؟‘‘
’’میں کیسے بتائوں؟‘‘
’’بھئی وہ لڑکی بہت ماڈرن ہے سمجھ میں نہیں آرہا کیسے سلوائے جائیں؟‘‘
’’اسی سے پوچھ لیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’ارے واہ! تم سے کیوں نہ پوچھیں بلکہ تم ساتھ جائو‘ زریاب لے جائے گا۔‘‘ اسی وقت نغمہ بیگم نے وہاں آتے ہوئے کہا۔
’’مگر پھوپو!‘‘ وہ کترائی۔
’’اچھا ہے نا‘ تمہارے مشورے سے سل جائیں گے۔‘‘ حنا نے کہا۔ نغمہ بیگم جونہی کمرے سے گئیں تو حنا نے سنجیدگی سے کہا۔
’’راحمین! دراصل اماں کو تمہارے انکار کا ابھی بتایا نہیں۔‘‘
’’تو تیاری…‘‘ اسے حیرت ہوئی۔
’’زریاب کے دوست کی بہن فریحہ‘ زریاب کو پسند ہے ہم نے خاموشی سے ان سے بات کی ہے‘ ذرا اماں کی طبیعت بہتر ہوجائے تو بتادیں گے۔‘‘
’’آپ اور زریاب پھوپو جانی کو دھوکا دے رہے ہیں؟‘‘ اسے بہت غصہ آیا۔
’’نہیں‘ مصلحت کا تقاضایہ ہے۔‘‘
’’زریاب کی پسند کا پھوپو کو پتا ہونا چاہیے‘اسے غصہ آرہا تھا۔‘‘ حنا نے واضح طور پر محسوس کیا۔
’’رحمین! زریاب کی پہلی پسند تم ہی تھیں مگر تم نے کیونکہ انکار کردیا ہے تو گھر کی عزت بچانے کے لیے فریحہ کا انتخاب کیا ہے۔‘‘ حنا بولیں۔
’’محبت کا محور بدل گیا نا۔‘‘ اس نے طنز کیا۔
’’کس نے بدلا؟‘‘ حنا نے بھی طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
’’چھوڑیئے‘ مجھے کیا بس مجھے واپس جانا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
’’مرضی تو زریاب کی چلی۔‘‘
’’لیکن پہل تم نے کی۔‘‘
’’ٹھیک ہے… ٹھیک ہے‘ مجھے واپس جانا ہے پلیز اوصاف بھائی سے کہیں کہ ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیں۔‘‘
’’اوکے رات کہہ دوں گی۔‘‘ حنا نے جواب دیا اور باہر چلی گئی۔ تب اسے بہت غصہ آیا‘ کھٹ سے پپا کو فون ملایا اور انہیں بھی آنے کو کہا وہ تو بے قرار ہوگئے۔ وہیں سے دلاسے دیئے اور اوصاف کو کہنے کا یقین دلایا۔
حنا اور زریاب بازار گئے تھے‘ عصر کاوقت ہورہا تھا اور وہ اب تک نہیں لوٹے تھے۔ تب نغمہ پھوپو نے چاند کو اس کے حوالے کیا۔
’’ارے بیٹا! تم چاند کو سنبھال لو‘ میں ذرا کچن میں جائوں کھانا بنانا ہے۔ افطار کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘
اس نے بڑے سلیقے سے روتے ہوئے چاند کو بازوئوں میں بھرلیا۔ روزے کی وجہ سے شدید نقاہت محسوس ہورہی تھی کیونکہ عادت ہی نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے وقت گزر رہا تھا ایسے میں چاند کو سنبھالنا مشکل کام تھا خیر تھپک تھپک کے اسے سلایا تو اخلاقاً کچن میں آگئی۔ نغمہ پھوپو اکیلی مصروف تھیں۔
’’ارے تم سوئیں نہیں۔‘‘وہ بولیں۔
’’نیند نہیں آرہی۔‘‘
’’چلو یہ لو دہی بھلے مکس کرو‘ وقت منٹوں میں گزر جائے گا۔‘‘ انہوں پھینٹا ہوا دہی کا بڑا سا ڈونگا اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ وہ پھوپو کو حقیقت بتادے لیکن باہر گاڑی کی آواز پر چپ ہوگئی۔
’’راحمین ! بچے آئو پہلے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔‘‘
’’جی! وہ سب کام چھوڑ کر ان کے ساتھ باہر آگئی۔‘‘
نمازسے فارغ ہوتے ہی حنا نے نغمہ پھوپو کو ان کے کمرے میں بھیج دیا اور خود اسے لیے کچن میں آگئی۔ سالن میں کچھ کثر باقی تھی‘ پکوڑوں کامسالا تیار تھا‘ رائتہ تیار تھا۔
’’بھئی وہ لڑکی بہت ماڈرن ہے سمجھ میں نہیں آرہا کیسے سلوائے جائیں؟‘‘
’’اسی سے پوچھ لیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’ارے واہ! تم سے کیوں نہ پوچھیں بلکہ تم ساتھ جائو‘ زریاب لے جائے گا۔‘‘ اسی وقت نغمہ بیگم نے وہاں آتے ہوئے کہا۔
’’مگر پھوپو!‘‘ وہ کترائی۔
’’اچھا ہے نا‘ تمہارے مشورے سے سل جائیں گے۔‘‘ حنا نے کہا۔ نغمہ بیگم جونہی کمرے سے گئیں تو حنا نے سنجیدگی سے کہا۔
’’راحمین! دراصل اماں کو تمہارے انکار کا ابھی بتایا نہیں۔‘‘
’’تو تیاری…‘‘ اسے حیرت ہوئی۔
’’زریاب کے دوست کی بہن فریحہ‘ زریاب کو پسند ہے ہم نے خاموشی سے ان سے بات کی ہے‘ ذرا اماں کی طبیعت بہتر ہوجائے تو بتادیں گے۔‘‘
’’آپ اور زریاب پھوپو جانی کو دھوکا دے رہے ہیں؟‘‘ اسے بہت غصہ آیا۔
’’نہیں‘ مصلحت کا تقاضایہ ہے۔‘‘
’’زریاب کی پسند کا پھوپو کو پتا ہونا چاہیے‘اسے غصہ آرہا تھا۔‘‘ حنا نے واضح طور پر محسوس کیا۔
’’رحمین! زریاب کی پہلی پسند تم ہی تھیں مگر تم نے کیونکہ انکار کردیا ہے تو گھر کی عزت بچانے کے لیے فریحہ کا انتخاب کیا ہے۔‘‘ حنا بولیں۔
’’محبت کا محور بدل گیا نا۔‘‘ اس نے طنز کیا۔
’’کس نے بدلا؟‘‘ حنا نے بھی طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
’’چھوڑیئے‘ مجھے کیا بس مجھے واپس جانا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
’’مرضی تو زریاب کی چلی۔‘‘
’’لیکن پہل تم نے کی۔‘‘
’’ٹھیک ہے… ٹھیک ہے‘ مجھے واپس جانا ہے پلیز اوصاف بھائی سے کہیں کہ ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیں۔‘‘
’’اوکے رات کہہ دوں گی۔‘‘ حنا نے جواب دیا اور باہر چلی گئی۔ تب اسے بہت غصہ آیا‘ کھٹ سے پپا کو فون ملایا اور انہیں بھی آنے کو کہا وہ تو بے قرار ہوگئے۔ وہیں سے دلاسے دیئے اور اوصاف کو کہنے کا یقین دلایا۔
حنا اور زریاب بازار گئے تھے‘ عصر کاوقت ہورہا تھا اور وہ اب تک نہیں لوٹے تھے۔ تب نغمہ پھوپو نے چاند کو اس کے حوالے کیا۔
’’ارے بیٹا! تم چاند کو سنبھال لو‘ میں ذرا کچن میں جائوں کھانا بنانا ہے۔ افطار کا بندوبست کرنا ہے۔‘‘
اس نے بڑے سلیقے سے روتے ہوئے چاند کو بازوئوں میں بھرلیا۔ روزے کی وجہ سے شدید نقاہت محسوس ہورہی تھی کیونکہ عادت ہی نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے وقت گزر رہا تھا ایسے میں چاند کو سنبھالنا مشکل کام تھا خیر تھپک تھپک کے اسے سلایا تو اخلاقاً کچن میں آگئی۔ نغمہ پھوپو اکیلی مصروف تھیں۔
’’ارے تم سوئیں نہیں۔‘‘وہ بولیں۔
’’نیند نہیں آرہی۔‘‘
’’چلو یہ لو دہی بھلے مکس کرو‘ وقت منٹوں میں گزر جائے گا۔‘‘ انہوں پھینٹا ہوا دہی کا بڑا سا ڈونگا اسے پکڑاتے ہوئے کہا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ وہ پھوپو کو حقیقت بتادے لیکن باہر گاڑی کی آواز پر چپ ہوگئی۔
’’راحمین ! بچے آئو پہلے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہیں۔‘‘
’’جی! وہ سب کام چھوڑ کر ان کے ساتھ باہر آگئی۔‘‘
نمازسے فارغ ہوتے ہی حنا نے نغمہ پھوپو کو ان کے کمرے میں بھیج دیا اور خود اسے لیے کچن میں آگئی۔ سالن میں کچھ کثر باقی تھی‘ پکوڑوں کامسالا تیار تھا‘ رائتہ تیار تھا۔