سورہ کہف کی آیت ایک سودومیں ارشاد ہوتا ہے
أَفَحَسِبَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ يَتَّخِذُوا عِبَادِي مِنْ دُونِي أَوْلِيَاءَ إِنَّا أَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ نُزُلًا
(18/102)
کہ آیا جن لوگوں نے کفرسے کام لیا ہے خیال کرتے ہیں کہ میرے بجائے وہ میرے بندوں کو اپنا حامی و سرپرست بنالیں گے ؟(تو یاد رکھیں ) ہم نے قطعی طورپر کافروں کے استقبال کے لئے جہنم (کی آگ )تیار کر رکھی ہے۔
(18/102)
جیسا کےہم نے عرض کیا اس سے قبل کفار سے متعلق گفتگو تھی کہ ہم اُن کافروں کو جہنم کا نظارہ کرادیں گے کہ جنھوں نے اپنی آنکھ اور کان ہماری یاد ،اور ذکر سے بند اور ڈھانپ رکھے تھے اور حق کی باتیں دیکھنے اور سننے کے بجائے چھپانے اور پردہ ڈالنے کی کوششیں کیا کرتے تھے اور اب آیت میں ان کی توبیخ و سرزنش کے لئے استفہام انکاری سے استفادہ کرتے ہوئے خداوند عالم نے ان کفار سے سوال کیا ہے کہ وہ کس خیال میں ہیں کیا وہ میرے بجائے ''عبادی'' یعنی میرے بندوں کو ۔ملائکہ کو یا عُزیز یؑا مریم ؑ یا عیسی مسیح ؑیا کسی بھی غیر اللہ کو۔اپناحامی و سرپرست ،ملجاؤ ماویٰ یا معبود و پیشوا بنا لیں گے اور اُن کی حمایت و سفارش اِن کو میرے عذاب سے بچالیگی ؟اور وہ سعادت و کامرانی حاصل کرلیں گے ؟؟ہم نے ان کفار کی خاطر و مدارات کے لئے جہنم تیار کر رکھا ہے یہ ہمیشہ کے لئے اسی میں ڈال دئے جا ئیں گے جب ان کو وہاں اپنا کوئی معین ومددگار اور کوئی حامی و سرپرست نظر نہیں آئے گا تو پچھتائیں گے کہ اگر خدا کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا معبود و پیشوا نہ بنائے ہوتے تو جہنم کی آگ میں جلنا نہ پڑتا ۔
سورۀ کہف کی آیات ایک سو تین اور ایک سو چار ، ارشادہوتا ہے
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا
(18/103)
الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا
(18/104)
اے ہمارے نبی !ذرا آپ ) ان سے پوچھئے کیا ہم تم کو بتادیں !اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ نقصان (اور خسارے ) میں کون ہیں؟
(18/103)
یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوششیں زندگانی دنیا میں(الجھ کر ) ضایع وبیکار چلی گئیں اور وہ اسی خیال میں (مست ) رہے کہ وہ بہت ہی اچھے (اور پسندیدہ ) کام کررہے ہیں۔
(18/104)
ان آیات میں خداوند عالم نے عالم بشریت کی ایک بڑی مشکل کی طرف متوجہ کیا ہے ہر دور میں ہر جگہ اور ہر بزم میں ایسے افراد موجود رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جو اپنے اعمال کے سلسلے میں اچھے برے کامعیار اور میزان اپنے خیالات و تصورات کو قرار دیتے ہیں اور بہ خیال خود اچھے کام کرکے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے بہت بڑا قلعہ فتح کرلیا ہے جنت میں ہمارے محل تیار ہورہے ہیں مگر انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ ان کی ساری جد و جہد دنیوی زندگی میں گم ہوکر کم ازکم آخرت کے نقطہ نظر سے ضایع و بیکار چلی گئی ہے کیونکہ انہوں نے جو کچھ بھی کیا تھا خدا ؤ رسول (ص) اور آخرت سے بے پروا ہوکر دنیوی عزت ،شہرت ،دولت ،حکومت اور عوامی مقبولیت کے لئے یا بعض اوقات دینی ماحول میں بھی ریاکاری سے کام لیتے ہوئے خود کو بڑا دیندار ثابت کرنے یا کوثر و جنت کی ہوس اور حوروں کی طمع میں بزعم خود اچھے اور پسندیدہ کام کئے ہیں اور کام کرتے وقت احکام الہی پر عمل کا کوئی تصور بھی ذہن میں نہیں تھا چنانچہ آیت میں نبی اکرم (ص) کی زبانی سوالیہ انداز میں لو گوں کو متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ''نا مراد ''جو سب سے زیادہ گھاٹے میں ہیں کیا ان کے بارہ میں جاننا چاہتے ہوتو سن لو یہ وہی لوگ ہیں جو صرف زندگانی دنیا کے لئے کام کرتے ہیں اور ان کی ساری کوششیں ھدف و مقصد خدا ؤآخرت نہ ہونے کے سبب ،دنیا میں ہی گم ہوکر رہ جاتی ہیں وہ اپنی جگہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اچھے کام کئے ہیں لیکن انکے عمل وقت کی بربادی اور صلاحیتوں کی تباہی کے سوا کسی کام کے نہیں ہوتے ۔پیش خدا اسی عمل کو اچھا اور مفید قرار دیا جا سکتا ہے جس میں اخلاص ہو جس کا مقصد خدا سے تقرب اور اس کی رضاؤخوشنودی حاصل کرنا ہو ورنہ آدمی بہ خیال خود اچھے اچھے کام کرکے بھی سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والوں میں قرار پائے گا ۔
اب ان ا یات کا مصداق وہ اہل کتاب ہوں جو بدعتوں اور اسرائیلی خرافاتوں میں مبتلا تھے یا وہ دنیا دار مسلمان ہوں جو راہ حق سے منحرف ہوکر نا اہلوں کی حکومت و ولایت میں چلے گئے ہیں ،آیت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ عمل خیر کا معیار خود اپنی یا کسی بھی غیر اللہ کی پسند و ناپسند کو بنانے کے بجائے الہی احکام اور الہی رضاؤ خشنودی کو قرار دینا چاہئے ورنہ کتنا ہی اچھا کام کیوں نہ انجام دیا جائے نقصان اٹھانے والوں میں شمار ہوں گے اور سارا عمل بیکار چلا جائے گا ظن ،گمان، قیاس اور خود رأی کے بجائے، زندگی کے تمام مفید امورمیں دینی و مذھبی احکام و قوانین کی پابندی اور تقرب الہی کی نیت لازم وضروری ہے ۔
اس کے بعد سورۀ کہف کی آیات ایک سو پانچ اور ایک سو چھ میں ارشاد ہوتا ہے
أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآَيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا
(18/105)
ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آَيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا
(18/106)
یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار کی نشانیوں اور (قیامت میں) اس کی ملاقات کا انکار کیا لھذا ان کے اعمال غارت و اکارت چلے گئے اس لئے ہم روز قیامت ان کے لئے (اعمال کی ) کوئی میزان قائم نہیں کریں گے
(18/105)
ان کی سزا (اور اعمال کا انجام )صرف جہنم ہے (کیونکہ) انہوں نے کفر سے کام لیا اور ہماری آیتوں اور ہمارے رسولوں کا مذاق اڑایا ہے۔
(18/106)
ان آیات میں خداوند عالم نے اُن تمام لوگوں کا انجام دوزخ قرار دیا ہے جو کفر سے کام لیتے ہیں اپنے عقائد میں یا اپنے اعمال میں یا عقائد و اعمال دونوں میں مشکل و انحراف سے دوچار رہے ہیں کیونکہ اس طرح کے لوگ جو دنیا بھر میں پھیلی الہی آیات یعنی توحیدی دلائل و شواہد اور آسمانی کتابوں کے منکر ہوں اور روز آخرت پر یقین نہ رکھتے ہوں یا خدا کے سامنے حاضری اور حساب و کتاب کا مذاق اڑاتے ہوں بہ خیال خود دنیا میں چاہے کتنا ہی اچھا کام کیوں نہ کریں دنیا کی تباہی کے ساتھ ان کے کام بھی ملیا میٹ ہوجائیں گے ان کے مادی کمالات و افتخارات ، ایجادات و مصنوعات تمام دنیا و ما فیھا دنیا کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گے اور جب خدا کے سامنے حاضر ہوں گے ان کے پاس کچھ بھی نہ ہوگا کہ اس کی قدر و قیمت معین کرنے کے لئے ''میزان '' قائم کی جائے اچھے اچھے کام بھی اگر صرف دنیا کی خاطرانجام دئے جائیں تو ان کے فوائد و نتائج دنیا میں ہی دولت و ثروت اولاد و خاندان ،عزت و شہرت مقام و منصب اور حکومت وسلطنت کی صورت میں مل جاتے ہیں آخرت میں کچھ بھی ساتھ نہیں ہوتا دنیا مطلوب تھی اور تمام اھداف و مقاصد دنیا تک محدود تھے اور فانی دنیاکے ساتھ وہ بھی فنا ہوگئے اور مٹ گئے آخرت میں میزان الہی پر وہی اعمال تولے جائیں گے جو خدا اور اخرت کے لئے انجام دئے گئے ہوں اور ان کا فروں کے پاس چونکہ ایسا کوئی کارنامہ نہیں ہے یہ خدا ؤآخرت کے ہی منکر تھے الہی آیات اور خدا سے ملاقات کا انکارکرتے اور خدا کے رسولوں اور کتابوں کا مذاق اڑاتے تھے
اس لئے میزان قائم کئے بغیر ہی ان کو جہنم کے حوالے کر دیا جائے گا۔
البتہ حبط اعمال کا مسئلہ صرف کفار و مشرکین سے مخصوص نہیں ہے نیکوکار مسلمانوں اورمخلص مومنین کے سامنے بھی یہ خطرہ ہروقت منڈلاتا رہتا ہے کہ کسی بھی اچھے اور خدا پسند کام کے وقت اگر رضائے الہی کے حصول پردنیا طلبی کا جذبہ غالب آیا تو آخرت کا ثواب اور نتائج ھاتھ سے نکل گئے علاوہ از این کسی بھی مرحلے میں حق کا انکار بھی اعمال ضبط و ضایع ہوجانے کا سبب بن سکتے ہیں یہ ویسے ہی ہے جیسے ایک غلام اورخادم زندگی بھر اپنے آقا ومالک کی خدمت انجام دے اور آخر میں ایک چھوٹی سی خیانت اور بد عنوانی یا
تخریب کاری پوری عمر کی خدمتوں پر پانی پھیر دیتی ہے ۔
چنانچہ آیات میں تمام انسانوں کو ذاتی ظن و گمان کے تحت بیجا عمل انجام دینے اور حقائق کی طرف سے غفلت و بے توجہی برتنے سے آگاہ و خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا طلبی اور طاغوتی قوتوں کی خوشنودی کے لئے خدا و آخرت کی یاد و ذکر سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے ۔